پروفئسر محمد حسین
مصروفیت ایک نعمت ہے جو کہ انسان کے لیے بہت ضروری ہے اگر یہ مصروفیت اتنی بڑھ جائے کہ انسان کے پاس اتنا وقت نہ ہو کہ وہ اپنے اہلخانہ کو وقت نہ دے سکے تو یہ انسانی زندگی کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتی ہے آج کام کی زیادتی اور مصروفیت کی وجہ سے والدین اور بچوں کے درمیان فاصلے پیدا ہو رہے ہیں باہم مل کر بیٹھنے اور ایک دوسرے کے دکھ درد اور خیریت معلوم کرنے کی روایتیں ماضی کے دھند لمحوں میں گم ہو رہی ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اب ہمارے پاس وقت نہیں رہا وقت ایک قیمتی متاع ہے جس کا بیشتر حصہ روزی کے حصول،اپنا بنک بیلنس بڑھانے کی بھینٹ چڑھ گیا ہے ہم وقت کو اس طرح استعمال کر کے اپنی جائیداد اور بنک بیلنس میں خاطر خواہ اضافہ تو کر سکتے ہیں مگر بیوی بچے بہن بھائی دوست عزیز و اقارب جو ہمارا قیمتی سرمایہ ہیں اور جن کا کوئی نعم البدل اس دنیا میں نہیں ہے ہم سے دور ہو جاتے ہیں مثلاً ایک شخص جس کو زندگی کی دوڑ میں آگے نکلنے کا جنون تھا اس نے ایک ملازمت چھوڑی اور دوسری ملازمت شروع کی اور کچھ عرصہ تک ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ایک اعلیٰ عہدہ تک پہنچ گیا مگر بیوی بچوں کو وقت نہ دے سکا روز کی لڑائی جھگڑا ہونے لگا اور بات علیحدگی تک پہنچ گئی اور بچے ماں باپ کی چھت سے دور ہو گئے اسی طرح ایک دوسرا شخص جس کی چھوٹی سی ایک فیکٹری تھی اس نے اپنی فیکٹری کو بڑھایا اور کئی فیکٹریوں کا مالک بن گیا مگر ماں باپ کی شفقت سے محروم ہو گیا والد پر فالج کا حملہ ہوا مگرہ وہ ان کی کماحقہ خدمت نہ کر سکا اور آخر کار والد اللہ کو پیارے ہو گئے جس کا اس صنعت کار کو بڑا افسوس اور رنج ہے آج ہمیں بہت سی سہولتیں میسر ہیں جن کی آج سے کچھ عرصہ پہلے انسان صرف خواہش ہی کر سکتا تھا مگر آج ہم ان سہولتوں کی کچھ زیادہ ہی قیمت ادا کر رہے ہیں اور وہ قیمت اپنے بیوی بچوں، والدین اور پیاروں سے دوری ہے آج سے چالیس پچاس سال پہلے ہمارے ملک میں ٹی وی کمپیوٹر انٹرنیٹ وغیرہ نہیں تھے اور لوگوں کے پاس اپنوں کے لیے وافر وقت تھا لوگ دیہاتوں میں رات کو چوپال میں مل کر بیٹھتے اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے پھر ہماری گھریلو زندگیوں میں ٹی وی نے قدم رکھا جس نے دیہاتوں کی چوپال کی رونقوں اور گھر میں بات چیت اور گپ شپ کو اجاڑ کر رکھ دیا آج گھروں میں ٹی وی کے سامنے ماں باپ دادا دادی بھی بیٹے ہوتے ہیں اور انہیں آپس میں بات چیت کرنے کا موقع نہیں ملتا اگر کہا جائے کہ ہمارے گھروں کی خوشیوں کا قتل ٹی وی نے کیا ہے کچھ غلط نہ کہنا ہو گا اس کے بعد کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے ہماری زندگی کابہت زیادہ تیز ہو جانا اس زمانے کا ایسا المیہ ہے جس کے ہماری زندگیوں پر تباہ کن اٹرات مرتب ہو رہے ہیں ٹی وی ،اے سی ،گاڑی،بنگلہ کا حصول ہماری زندگی کا نصب العین بن گیا ہے سوتے وقت تک ہمارا دماغ مصروف رہتا ہے ہماری ازدواجی الجھنوں اور بچوں کے بگاڑ کا بنیادی سبب یہ ہے کہ شوہر کے پاس بیوی بچوں اور والدین کے پاس بچوں کی باتیں سننے کا وقت نہیں رہا آج اگر ہم ایک دوسرے کی باتیں غور سے اور ٹھنڈے دل سے سن لیں تو ہمارے آدھے سے زیادہ مسائل ختم ہو سکتے ہیں آج ہر کوئی کہتا ہے کہ وقت کی رفتار بہت تیز ہو گئی ہے تو یہ محض ایک دھوکہ ہے کیونکہ یہ کائنات ایک لگے بندھے قانون کے مطابق چل رہی ہے اور اس میں زرہ برابر فرق نہیں آسکتا حتیٰ کہ طلوع اورغروب آفتاب کے اوقات بھی مائیکرو سیکنڈ کے حساب مقرر ہیں ذرا سوچئیے کہ ہم کس طرح اپنے بیوی بچوں ،والدین اور بہن بھائیوں اور پیاروں کے لیے وقت نکالیں شروع میں کوشش کریں شام کو کم از کم ایک گھنٹہ اپنے بیوی بچوں اوروالدین کے لیے وقف کر دیں ان کے ساتھ باتیں کریں اور ان کے مسئلے سن کر ان کو حل بھی کریں صرف چند دنوں کے بعد ہی آپ اپنے اندر اور گھر کے تمام افراد کے اندر ایک نمایاں تبدیلی محسوس کریں گے اور بہت سی گھریلو مشکلات سے نجات پا جائیں گے آج ہمارے گھر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ظاہری طو ر پر تو گھر بہت خوبصورت ہیں لیکن یاد رکھیں کہ گھر اینٹ اور سیمنٹ سے نہیں بنتے گھر تو رشتوں کی آپس میں محبت و احترام سے مضبوط اور خوبصورت ہوتے ہیں وہی گھر جو افراد سے بھرا ہو ا اور ایک دوسرے سے محبت و احترام سے پیش آنیوالے اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے والے رہتے ہوں وہاں خوشیاں اور سکون اپنا بسیرا کر لیتے ہیں لیکن جن گھروں میں رشتوں کا احترام ختم ہو گیا ہو وہاں خوشیاں اور سکون روٹھ جاتے ہیں ہمارے معاشرے کی صورتحال بالکل یہی ہے آج اس چیز کی بہت ضرورت ہے کہ اپنے گھروں کو ٹوٹنے سے بچایا جائے اور ایک دوسرے کو عزت اور احترام دیں اور رشتوں میں جو محبت و احترام ختم ہو رہا ہے پھر سے محبت کو ان رشتوں میں بھر دیں۔
274