اپنے ماں باپ کی قیمت کو خدارا سمجھویہ وہ ہیرے ہیں جو ملتے نہیں بازاروں میں چند دن پہلے میرا گزر ہوا ایک اولڈ ایج ہوم میں وہاں پہ کئی بزرگ باپ بیٹوں کے انتظار میں بیٹھے ہیں وہ بیٹے کہ جن کی خاطر انہوں نے اپنی زندگیاں داؤ پہ لگائی اپنے کھانے پینے کا احساس کیے بنا اپنے پہننے اوڑھنے کا احساس کیے بنا اپنی اولاد کو پالا ان کو پروان چڑھایا ان کو سماج کا باعزت حصہ بنایا۔
اپنی جوانی اپنی دولت اپنی خوبصورتی سب بیٹوں کی خاطر قربان کر کے جب بوڑھے والدین عمر اس حصے میں پہنچے جہاں پہ بیٹے سہارا بنتے ہیں جہاں بیٹے لاٹھیاں بنتے ہیں جہاں بیٹے دنیا سے بچاتے ہیں دنیا کی دھوپ سے والدین کو بچاتے ہیں وہی بیٹے وہی اولاد انہیں اولڈ ایج ہوم میں چھوڑ آئی۔ وہاں جہاں پہ وہ دوسروں کے مرہون منت ہیں۔ ارے میرا اسلام تو ماں باپ کی عزت کا درس دیتا ہے ماں باپ کی نافرمانی سے روکتا ہے
اور ماں باپ سے اف تک نہ کہنے کا حکم دیتا ہے اج لوگ رحمتیں ڈھونڈتے ہیں اور کہتے ہیں جی رحمت نہیں ملتی رحمت کہاں سے ملے گی جب رحمت ناراض ہو آپ سے میں نے ان والدین کو روتے گڑگڑاتے دیکھا ایک والد نے اپنے 76 سالہ زندگی میں سے 35 سال اپنے بیٹوں کی خاطر کمانے میں لگائے وہ ضلع گجرات سے تعلق رکھتا تھا اور پختون خواہ میں جا کے اس نے نوکری کی صرف اس لیے کہ اس کے بیٹے ان کا مستقبل اچھا رہے لیکن جیسے ہی بابا کی جاب ختم ہوئی بابا فائدہ مند ثابت نہ ہوا تو بیٹوں نے اولڈ ایج ہوم میں پھینک دیا ایک بابا مری سے تعلق رکھتا تھا ایک بابا راولپنڈی سے تعلق رکھتا تھا ایک بابا اچھی بھلی پڑھی لکھی فیملی کا فرد لگ رہا تھا
یہ سارے بزرگ انتظار کر رہے تھے کہ کسی دن ان کے بیٹے آئیں کسی دن آئیں اور ان سے باتیں کریں انہیں لے جائیں اور بولیں کہ بابا ہم سے بھول ہوئی ہم سے غلطی ہوئی۔ یقین کریں میں ایک بزرگ کے پاس بیٹھا دس منٹ بیٹھا 15 منٹ بیٹھا تو باتوں کو ترس رہے تھے ان کا دل کر رہا تھا وہ بولتے رہیں بولتے رہیں بولتے رہیں اور کچھ سننے والا سنتا رہے۔ بچپن میں بیٹا ایک دفعہ باپ سے پوچھتا ہے بابا یہ بتائیں یہ کیا ہے تو باپ بتاتا ہے یہ چڑیا ہے بیٹا پھر پوچھتا ہے بابا بتائیں یہ کیا ہے باپ پھر بتاتے ہیں کہ یہ چڑیا ہے بیٹا پھر پوچھتا ہے باپ پھر بتاتا ہے اور یہ سلسلہ کئی دفعہ چلتا ہے لیکن جوانی آئی بیٹے کی باپ بوڑھا ہو گیا
اب اس باپ کو سننے کے لیے بیٹے کے پاس ٹائم نہیں ہے وقت نہیں ہے بیٹے کے پاس کہ وہ باپ کو سن سکے تو وہ باپ ترس رہا ہے منتظر ہے کہ بیٹا آئے یا پھر کوئی اور آئے جس کو وہ باتیں سنائے۔ اپنے پوتوں سے کھیلنے کی عمر میں وہ اولڈ ایج ہوم میں بیٹھا انتظار کر رہا ہے کہ کوئی امیر فیملی آئے اور اس کا خرچہ اٹھائے۔ اپنے پوتیوں کی ناز اور نخرے اٹھانے کی عمر میں وہ دادا وہ نانا اولڈ ایج ہوم میں بیٹھا انتظار کرتا رہا اور بیٹا باہر اپنے کاروبار میں اپنی جاب میں رحمتیں ڈھونڈتا رہا اور پھر خدا سے شکوہ کرتا رہا کہ ہمیں رحمت نہیں ملتی رزق واسع نہیں ملتا ہائے ہائے۔