پاکستان میں سی ایس ایس کا امتحان کسی خواب سے کم نہیں سمجھا جاتا۔ نوجوان کئی سالوں کی محنت، نیندوں کی قربانی، اور بے شمار اُمیدوں کے ساتھ اس امتحان کی تیاری کرتے ہیں۔ کامیابی کے بعد جب وہ “افسرِ ریاست” بنتے ہیں، تو معاشرہ انہیں عزت، اختیار، اور طاقت کا پیکر سمجھتا ہے۔ مگر حقیقت اکثر اس کے برعکس ہوتی ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جن میں کامیاب سی ایس ایس افسران نے خودکشی کا راستہ اختیار کیا۔ سوال یہ ہے: وہ لوگ جنہوں نے محنت، قربانی، اور خوابوں کے بعد یہ مقام حاصل کیا — آخر وہی لوگ زندگی سے مایوس کیوں ہو جاتے ہیں؟
ایک عام امیدوار کے لیے سی ایس ایس کا مطلب ہے: خدمت، عزت، اور ملک کی بہتری۔ مگر جب وہ عملی میدان میں آتا ہے، تو اسے اس نظام کا وہ چہرہ نظر آتا ہے جس کی کسی کتاب میں وضاحت نہیں۔
بیوروکریسی کے اندر بدعنوانی، سیاسی دباؤ، اور میرٹ کی پامالی عام ہے۔ ایماندار افسر اکثر بے اختیار محسوس کرتا ہے۔ وہ جو نظام بدلنے آیا تھا، خود اسی نظام کی دیواروں میں قید ہو جاتا ہے۔
روزنامہ ڈان کی ایک حالیہ رپورٹ میں ایک سابق افسر کی خودکشی کی خبر سامنے آئی، جس کے ساتھیوں نے بتایا کہ وہ “ذہنی دباؤ” اور “انتظامی مداخلت” سے شدید پریشان تھا۔ یہ واقعہ اس حقیقت کو نمایاں کرتا ہے کہ کامیابی کے بعد بھی ذہنی سکون حاصل نہیں ہوتا۔
پاکستان میں ذہنی صحت پر بات کرنا اب بھی ایک “کمزوری” سمجھا جاتا ہے۔ خاص طور پر سرکاری افسران کے لیے اپنے مسائل بیان کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔
ایک سی ایس ایس افسر صبح و شام عوامی دباؤ، سیاسی حکم، اور ادارہ جاتی الجھنوں میں گھرا رہتا ہے۔ نیند کی کمی، عدم تحفظ، اور تنہائی آہستہ آہستہ انسان کو اندر سے توڑ دیتی ہے۔
بدقسمتی سے سرکاری اداروں میں ذہنی معاونت یا مشاورتی نظام کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ خلا اکثر بڑے المیوں کو جنم دیتا ہے۔
جب کوئی نوجوان سی ایس ایس افسر بنتا ہے تو معاشرہ اسے مثالی انسان سمجھ لیتا ہے۔
خاندان اور دوستوں کے نزدیک وہ کامیابی کی علامت ہوتا ہے، مگر شاید کوئی نہیں سمجھتا کہ وہ انسان بھی ہے — احساسات، تھکن، اور کمزوریوں کے ساتھ۔
یہی “کامل ہونے” کی توقع اسے اندر سے تنہا کر دیتی ہے۔ دفتر میں وہ افسر ہے، گھر میں ہیرو، مگر دل میں ایک خاموش جنگ لڑ رہا ہوتا ہے۔
ایسی خاموشی جب کسی کو سنانے والا نہ ملے، تو وہ چیخ بن جاتی ہے — جو اکثر کوئی نہیں سنتا۔
ہمارے سرکاری ڈھانچے میں افسر کو ایک “کارکردگی کی مشین” سمجھا جاتا ہے۔ اس کے احساسات، ذہنی کیفیت یا ذاتی مسائل کو شاذ و نادر ہی اہمیت دی جاتی ہے۔
یہ رویہ ایک ایسے ماحول کو جنم دیتا ہے جہاں افسر صرف حکم بجا لانے والا پرزہ بن جاتا ہے۔
جب انسان کی “انسانیت” ختم ہونے لگے، تو وہ زندگی سے بیزار ہو جاتا ہے۔ خودکشی اس بیزاری کی آخری انتہا ہے، جسے معاشرہ “ناشکری” کہہ کر بھلا دیتا ہے۔
تربیتی نظام اور حقیقت کا تضاد
سی ایس ایس کے دوران تربیت حاصل کرنے والے افسران کو کتابی نظریات، اخلاقی ضابطے، اور خدمت کے جذبے سے بھر دیا جاتا ہے، مگر عملی دنیا میں ان اصولوں کی کوئی جگہ نہیں۔ اکیڈمی میں جو سبق دیے جاتے ہیں، وہ فیلڈ میں ٹوٹ جاتے ہیں۔ ایک افسر جب پہلی بار سیاسی مداخلت یا غیر منصفانہ فیصلوں سے ٹکراتا ہے، تو وہ سمجھ جاتا ہے کہ ریاستی نظام میں “اصول” اکثر کمزور اور “مصلحت” طاقتور ہوتی ہے۔ یہی احساس اس کے اندر سے عزم کو کھوکھلا کر دیتا ہے
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں کسی افسر کی خودکشی کو بھی سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔ لوگ صرف ایک خبر پڑھتے ہیں، افسوس کرتے ہیں، اور بھول جاتے ہیں۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ اس واقعے کے پیچھے کتنی اذیت، کتنی بے بسی، اور کتنی خاموش چیخیں دفن ہوتی ہیں۔ جب معاشرہ اپنے ذہین اور محنتی لوگوں کی موت کو معمول سمجھ لے، تو یہ صرف افسوس نہیں بلکہ خطرے کی گھنٹی ہے۔ ہمیں یہ رویہ بدلنا ہوگا کہ سرکاری نوکری حاصل کرنا کامیابی کا اختتام ہے — دراصل وہ زندگی کی سب سے مشکل شروعات ہوتی ہے۔
سی ایس ایس امتحان میں امیدواروں کی علمی قابلیت تو پرکھی جاتی ہے مگر ان کی ذہنی اور جذباتی تربیت کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اگر ریاست واقعی چاہتی ہے کہ اس کے افسران مؤثر اور مضبوط ہوں، تو انہیں ذہنی طور پر مستحکم بنانے کے لیے تربیتی پروگرامز، نفسیاتی مشاورت، اور رہنمائی کے سیشنز لازمی کرنے ہوں گے۔ صرف علمی کامیابی نہیں بلکہ جذباتی برداشت ہی اصل امتحان ہے — اور یہی وہ امتحان ہے جو ہمارے نظام میں ابھی تک شامل نہیں کیا گیا۔
یہ المیے ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ مسئلہ صرف انفرادی نہیں بلکہ ادارہ جاتی ہے۔
اگر ہم اپنے افسران کو صرف فائلوں کا بوجھ دینے کے بجائے ان کے ذہنی بوجھ کو بھی سمجھیں، تو حالات بدل سکتے ہیں۔
اداروں میں ذہنی مشاورت کے مراکز قائم کیے جائیں۔
سیاسی دباؤ سے آزاد ماحول فراہم کیا جائے۔
افسران کے لیے ساتھی معاونت کے نظام بنائے جائیں۔
میڈیا اور معاشرہ مل کر ذہنی صحت پر آگاہی مہمات چلائیں۔
یہ قدم نہ صرف انسانی جانیں بچا سکتے ہیں بلکہ اس نظام میں نئی جان ڈال سکتے ہیں جسے کبھی “ریڑھ کی ہڈی” کہا جاتا تھا۔
سی ایس ایس افسران کی خودکشیاں کسی ایک فرد کی ناکامی نہیں، یہ ریاستی اور سماجی نظام کی خامی کا ثبوت ہیں۔
ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ افسر بھی انسان ہیں، انہیں بھی احساس، احترام، اور ذہنی تحفظ کی ضرورت ہے۔
خدمتِ وطن کا خواب تبھی مکمل ہوگا جب ریاست اپنے خدمت گزاروں کو جینے کا حق دے۔