عاطف افتخار
ہم لوگ ہر دو تین سال ووٹنگ کے عمل گزرتے ہیں۔ ۳۱۰۲ میں عام انتخابات ہوئے تو عوام نے حق رائے دہی استعمال کیا پھر دسمبر ۵۱۰۲ میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تو ایک بار پھر عوام نے اپنے ووٹ سے عوامی نمائندے منتخب کیے۔ بلدیاتی انتخابات کو عام انتخابات کا تسلسل کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ کیونکہ یہ سمجھا جاتا ہے ۰۹ فی صد ایسے امیدوار کامیاب ہو جائیں گے جن کی پارٹی حکومت میں ہوتی ہے۔ اس لیے بلدیاتی انتخابات کو عوام کا انتخاب نہیں کہا جا سکتا البتہ حکومت کے تسلسل کی خاطر اختیارات کی عام سطح پر منتقلی ضرور کی جاتی ہے۔ اب کیا اختیار واقعتا عوام تک منتقل ہوتا ہے یا نہیں اس پر بہت سے سوالیہ نشان ہیں۔ الیکشن کمپین سے لے کر انتخابات کے دیگر سیاسی عمل کا جائزہ قدرے دلچسپ ہے اور مضحکہ خیز بھی۔ بہت سے افراد کاروبار زندگی چھوڑ کر سیاسی راہنماوں کی کمپین چلانا شروع کر دیتے ہیں کیا وہ سب فی سبیل اللہ کر رہے ہوتے ہیں؟ اس کا جواب نفی میں ملتا ہے۔ پھر وہ کون سے محرکات ہو سکتے ہیں کہ جن کی بنیاد پر کچھ نوجوان اور ورکرز شب و روز اپنی وفاداریاں ثابت کرنے میں صرف کردیتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ تمام تر مفادات شخصی، ذاتی یا علاقائی ہوتے ہیں۔ وسیع پیمانے پر ملک کی فلاح اور سیاسی نظریہ رکھنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد اس سیاسی عمل سے دور نظرآتے ہیں۔ بہت سے شریف، تعلیم یافتہ اور معزز گھرانوں کے افراد اس سیاسی عمل میں شریک ہی نہیں ہوتے یا پھر اس سے اجتناب کرتے ہیں۔اقتدار میں انے کے بعد متعلقہ حکومتی امیدوار نے اسی ٹیم کو اخیتارات اور اثر رسوخ منتقل کرتا ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارا یہ نظام نہ صرف جمہوریت کی نفی ہے بلکہ استحصال پر مبنی ہے۔ کیوں وطن عزیز میں ایک پڑھا لکھا شہری اپنے مسائل کے حل کے لیے کسی نہ کسی سیاسی اثر رسوخ کا متلاشی اور پابند نظر آتا ہے؟ کیوں ادارے اس قدر فعال اور نظام اس قدر شفاف نہیں ہے کہ تمام تر ترقیاتی کام اور وسائل ایک درخواست کی بنیاد پر اور غیر سیاسی طریقے سے حل ہو جائیں۔ کیوں ترقیاتی کام کرانے کی تختیاں لگائی جاتی ہیں۔ ہم پاکستانی ہر چیز خریدتے وقت اور اپنی تنخواہوں سے اور دیگر لین دین میں ٹیکس دیتے ہیں۔ اور یہ حق رکھتے ہیں کہ ہمارے ٹیکس کے پیسوں سے اگر ہمارے مسائل کے حل لیے کچھ خرچ کر دیا جائے تو ہم پر کون سا احسان کیا جاتا ہے۔ یہ ہمارا حق ہوتا ہے جسکا بمشکل چند فی صد بھی ہم پر پوری ایمانداری سے خرچ نہیں کیا جاتا ہے۔ جس نے انصاف کیا عوام اسے کریڈٹ دیتے ہیں اور جس نے ظلم کیا اسکا بھی احتساب کرتے ہیں اور محاسبے کا یہ اختیار عوام کو پانچ سال بعد ملتا ہے۔ پانچ سال بعد عوام جب اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے جا رہے ہیں تو اس بات کو ضرور ملحوظ خاطر رکھیں کب کتنی بار کہاں کہاں وہ اس استحصالی نظام کا شکار ہوئے اور اس کے ذمہ داران کون ہیں۔ پاکستانی کی جمہوری اور سیاسی تاریخ میں شائد ہی منتخب قومی اور صوبائی نمائندوں نے اس بات کی مخلص کوشش کی ہو کہ نظام کو شفاف، فعال اور اس قدرآسان بنا دیا جائے کہ شہری متعلقہ اداروں میں جا کر اپنے مسائل کا حل تلاش کریں اور انہیں کبھی کسی بھی سیاسی شخصیت کا وسیلہ درکار نہ ہو۔ لیکن افسوس صد افسوس! میرے قارئین بھی یہ تحریر پڑھتے وقت ضرور سوچیں گے میں کس نظام اور کس پاکستان کی بات کر رہا ہوں۔ جہاں الیکشن میں حصہ صرف وہ لوگ لے سکتے ہیں جو کروڑوں خرچ کر سکتے ہوں۔ کیا وہ سیاسی نمائندے نظام کو شفاف بنائیں گے۔ کیا وہ لوگ خود اپنے ہاتھ سے سارے اختیارات عوام کی جھولی میں ڈال دیں گے۔ اور انہیں اس بوسیدہ سیاست سے آزاد کردیں گے۔ حکومت کا حصہ ہوتے ہوئے ہمارے صوبائی حلقے کے ایک ایم پی اے ہر ہفتے اپنے دفتر عوام سے ملاقات کرتے اور انہیں یہ سمجھاتے کہ وہ ان کے مسائل کیوں نہیں حل کرسکتے ہیں فلاں میرے اختیار میں نہیں ہے۔ فلاں محکمہ کا نظام ایسا ہے اور ویسا ہے تو پڑھے لکھے اور با شعور ووٹرز ان سے یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ حکومت ہوتے ہوئے آْپ کس حثٰیت سے نظام کی خرابی کا رونا روتے رہے۔ اپ کو چاہیے تھا کہ نظام کو ٹھیک کرنے کی مخلصانہ کوشش کرتے یا اس کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے اور حکومت سے الگ ہو کر کچھ ایسے ہم خیالوں سے جا ملتے تو جو ایسے نظام کے متلاشی ہیں جو کہ عوام کے مسائل کے حل اور ان کی عزت نفس کی بحالی میں سنجیدہ کوشش کر رہے ہیں۔ علاقہ کے دیگر سیاسی راہنماوں نے بھی کبھی یہ کوشش نہیں کہ نظام کی درستگی کے ذریعے عوام کو آزادی فراہم کر دی جائے جہاں وہ اپنے دیہات کے لیے گیس کا کنکشن محض ایک درخواست سے ممکن بنوا سکیں۔ جہاں اسکول کو اپ گریڈ کرانے لیے کسی اپم پی اے یا ایم این کی مدد ضرورت نہ ہو۔ جہاں راستے پختہ کرنے کے لیے براہ راست محکمہ شاہرات سے رابطہ کیا جائے اور وہ بغیر یہ پرواہ کیے کہ یہ حکومتی پارٹی کے کسی ممبر کا حلقہ ہے یا کسی اپوزیشن پارٹی کے منتخب نمائندے کا۔ ادارے کا عملہ سروے کرے اور مسئلے کے حل کے لیے عملدراآمد کردے۔ یہ سب ہو سکتا ہے لیکن ہمارے یہ سیاست دان جو سالہا سال سے اس ملک پر حکومت کرتے آئے ہیں کیونکر ایسا نظام متعارف کروائیں گے۔ نظام ایسا ہو گیا تو عوام گلی، نالی، سڑک، اسکول کی سیاست سے آزاد ہو کر ملکی سطح پر معشیت کی بہتری اور دیگر مسائل کا حل ان سے تقریروں میں مانگیں گے۔ کاش کہ سیاست دان ایسا کریں! لیکن عقل یہی کہتی ہے کہ ایسا سیاست دان کیونکر کریں گے۔ میں نے ان اس تحریر میں جتنی بھی باتیں لکھی ہیں اس کا شعور صرف اور صرف عمران خان کی تقاریر سے حاصل کیا ہے۔ عمران خان وہ واحد لیڈر ہے جس نے قوم کی توجہ اس جانب بھی مبذول کروائی کہ عوامی نمائندوں اور سیاست دانوں کا کام ٹھیکداری نہیں ہوتا کہ وہ ترقیاتی کام کرائیں ان کام قانون سازی ہوتا ہے۔ یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ قومی اسمبلی کے اندر ایسے بھی ممبران موجود ہوتے ہیں کہ جو اتنی اہلیت ہی نہیں رکھتے کہ قانون سازی کہ عمل میں موثر کردار ادا کرسکیں۔ بہر حال جو ایک سوچ اور بیانہ عمران خان نے اس قوم کو دیا ہے اس پر ایک بار یقین کر لینے میں کوئی حرج نہیں بصورت دیگر ۳۲۰۲ کے الیکشن ہوں اور عوام اس دفعہ کی منتخب کردہ حکومت سے بھی حساب مانگ لیں گے۔ خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کی حکومت پر بہت سے تحفظات موجود ہیں جن کا جواب مانگنا ہمارا حق ہے تاہم سینئٹرز کے حالیہ دورے کے بعد ن لیگ کے سینئٹر مشاہد حسین سید نے میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے، خیبر پختونخواہ کی پولیس کو نہ صرف ایک مثالی پولیس قرار دیا بلکہ اس کا موازانہ ترقی یافتہ ملکوں کی پولیس سے بھی کیا۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ جو کہ سندھ اور پنجاب میں بار ہا حکومت کر چکے ہیں کبھی بھی پولیس کو غیر سیاسی اور فعال کرنے کی مخلصانہ کوشش نہیں کر رہے کیونکہ اسی تھانے اور کچہری کے نظام کے ذریعے انہوں نے اپنی سیاست کی پرورش کرنا ہوتی ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی سوچ میں وسعت لاتے ہوئے ایسے سوالات کی گنجائش پیدا کریں کہ جس سے اگہی، شعور اور تبدیلی کا ایک سفر شروع ہو سکے۔ ا?خرکب تک ہم ایک ہی لاٹھی سے ہانکے جاتے رہینگے اور ہم شعور رکھنے کے باوجود خاموش تماشائی بنے رہینگے اس لیے ضروری ہے کہ پچیس جولائی کو ہر وہ شخص جو وطن عزیز میں تبدیلی کا خواہاں ہے نہ صرف خود ووٹ پول کرے بلکہ دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دے۔ قارئین تحریک انصاف سے یہ گنجائش صرف اس لیے برتی گئی کہ ابھی تک اس جماعت نے وفاق میں ملک کی باگ دوڑ نہیں سنبھالی۔ وفاق میں حکومت میں مل جانے کی صورت میں تحریک انصاف کے پاس کوئی عذر باقی نہیں بچے گا پھر اسد عمر صاحب کی باتیں غیر موثر ہو جائیں گی اور عوام کارکردگی کا مطالبہ کریں گے۔ اگر عمران خان صاحب وزیراعظم بن گئے تو یہ باب بھی ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے گا کہ انہیں وفاق میں حکومت ملی نہیں تو ان پر تنقید کیوں کی جا رہی ہے۔ میری تحریر سیاختلاف کرنا قارئین کا حق ہے۔ وہ کسی بھی سیاسی جماعت اور نمائندے کو ووٹ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔
80