حکیم الامت علامہ محمد اقبا ل نے جہا ں اپنی آفاقی وانقلابی شاعری میں بہت سے منفرد اور اچھوتے تصورات کو پیش کیا ہے جو ہمارے ادب میں امر ہو چکے ہیں وہیں فرد کے تصور کو پیش کر کے اس کی اہمیت کو بخوبی اجاگر کیا ہے
_ قطرہ قطرہ مل کر دریا اور سمندر بناتے ہیں _ لمحات مل کر منٹ گھنٹے دن سال اور صدیو ں کی تشکیل کرتے ہیں چھوٹے چھوٹے ذرات باہم مل کر بلند وبالا فلک بوس پہاڑ بن کر اپنی عظمت کی تصویر کشی کرتے ہیں
ایسے ہی جو قطرات دریا اور سمندر سے نکلتے ہیں وہ بے حیثیت ہو جاتے ہیں اور اپنا بے کراں وجود کھو بیٹھتے ہیں _جو ذرات پہا ڑوں سے اپنا نا طہ توڑتے ہیں وہ مثل خاک ہو ا میں اڑتے دکھا ئی دیتے ہیں۔
علا مہ اقبا ل فلسفہ اجتماعیت کے قائل ہیں وہ اس کی عکا سی یوں کرتے ہیں:
ڈالی گئی جو فصل خزاں میں شجر سے ٹوٹ
ممکن نہیں ہری ہو سحاب بہار سے
ہے لازوال عہد خزاں اس کے واسطے
کچھ واسطہ نہیں ہے اسے برگ و بار سے
اقبال کے فرد کا یہ خاصہ ہے کہ وہ ہر لحظہ اور ہر حال میں اپنے مرکز سے منسلک رہے وہ فرد کو ڈالی اور ملت کو شجر قرار دے کر یہ با ت فرد پر واضح کرتے ہیں کہ جیسے موسم خزاں میں درخت سے جدا ہو نے والی ٹہنی کا درخت سے تعلق ختم ہو جاتا ہے
اس پر کبھی بہار نہیں آ سکتی اس پر موسم بہا ر میں ہو نے والی بارش بے اثر ہو تی ہے اس پر خزاں دائمی ہو تی ہے ایسے ہی مشکل وقت میں اپنی قوم سے تعلق توڑنے والے فرد کے مقدر میں دائمی ذلت لکھ دی جا تی ہے
ہماری تاریخ میں جہاں امام حسین علیہ السلام، ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ عظمت کا استعارہ ہیں وہیں یزید، میر صادق اور میر جعفر انسا نی تاریخ میں ذلت کا استعارہ ثابت ہو ئے ہیں ِ
ہما رے معاشرے میں عموما ًقوم سے مراد ذات پا ت پر مبنی معاشرتی تقسیم لی جا تی ہے جو افراد کو تقسیم در تقسیم کر کے چھوٹے چھوٹے گرو ہو ں تک محدود کر دیتی ہے
جبکہ اقبال کا پیش کردہ تصور ملت وقوم مذکورہ بالا سے بے انتہا عالی وارفع ہے وہ اس فر سودہ تصور کی یو ں نفی کرتے ہیں:
یو ں تو سید بھی ہو،مرزا بھی ہو،افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتا ؤ کہ مسلمان بھی ہو
اقبال ؒکا تصور قوم سے مراد امت مسلمہ ہے جو تمام دنیا میں موجود ہے ان کے نزدیک جغرافیائی حدود بے معنی ہیں وہ تما م مسلمانو ں کو باہم متحد اور جسم واحد کی ما نند دیکھنا چا ہتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ:
ایک ہو ں مسلم حر م کی پا سبا نی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کا شغر
ٖافراد کے باہمی ملاپ سے ایک معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور افراد ہی کا جو ہر خاص ایک منظم اور باوقار ملت کی اساس میں کا ر فرما ہو تا ہے
در حقیقت اگر کسی بھی ملک ومعاشرے کے افراد کی روح میں غیرت ایما نی،حمیت قومی اور جمیعت ملی ازحددرجہ سرائیت کیے ہوئے ہوں تو وہ ایک باوقار اور آ شفتہ سر قوم کے غمازہیں
اور اگر افراد مذکورہ صفات سے تہی ہیں تو وہ ایک ہجوم کے تر جما ن ہیں ہجوم معاشر ے کا فخر نہیں ہو اکرتا اس کی نہ تو کوئی سمت ہوتی ہے اور نہ ہی کو ئی منزل ہجوم احساس اور حسا س جذبات سے عاری ہو تا ہے ہجوم ہمیشہ منتشر ہو اکرتا ہے
جبکہ قوم اکائی کی تصویر کشی کیا کرتی ہے۔اقبا ل کا فرد شاہینی صفا ت کا ما لک ہو ا کرتا ہے وہ ذاتی تفاخرات،علا ائیت،صوبائیت اور عصبیت کے دیو ہیکل بتوں سے متاثر نہیں ہوا کرتا
بلکہ وہ ان سب کو پاش پاش کر دیتا ہے وہ قومی،ملی اور وطنی سا لمیت پر ایمان رکھتا ہے اجتما عیت اس کا خاصہ ہے قومی وملی مفاد اس کے لیے اولیت کا درجہ رکھتے ہیں وہ ایک ایسے مرد مومن کی تصویر کشی کرتا ہے کہ:
دو نیم اس کی ٹھوکر سے صحرا ودریا
سمٹ کر پہاڑ اس کی ہیبت سے رائی
در حقیقت جسم واحد کی طرح متحدہ افراد ایک منظم اور باوقار ملت کے عکا س ہو تے ہیں وہ اپنی ملت کی چکا چوند اور تاب نا ک تقدیر خود رقم کرتے ہیں یاس وناامیدی کو وہ اپنے قریب بھٹکنے نہیں دیتے
ان کے سا منے خواہ مشکلا ت و مصائب کا کوہ گراں ہی کیوں نہ ہو وہ اسے خاطر میں نہیں لا تے ان کے مد نظر فقط ایک ہی مقصد ہو تا ہے اور وہ ہوتا ہے ملت کی پا سبانی_ ہما را ماضی شاندار روایا ت کا آئینہ داررہا ہے
مگر صدافسوس کہ ہما را حال زبوں حالی کا شکا ر ہے اگر ہمیں بحیثیت قو م اپنے مستقبل کو در خشاں بنا نا ہے تو ہمیں اقبال کے اجتماعیت کے تصور کو فروغ
دینا ہو گا ہر فرد کو اپنے حصے کا کا م کرنا ہو گا اگر ہم اپنا محاسبہ کریں اور اپنے مقام کا بحیثیت قوم جائزہ لیں تو ہم پر یہ حقیقت بخوبی آشکار ہو جاتی ہے
کہ ہم ایک باوقار اور منظم قوم کے افراد ہیں یا ایک منتشر ہجوم ہیں؟ کاش ہم خود کو تمام تفرقات سے آزاد کریں اور اتحاد،یگانگت اور وحدت کی طا قت کو پہچانیں اے کاش ہما ری ملت کا ہر فرد جا ن لے کہ:
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اوربیرون دریا کچھ نہیں
افراد ہی ملت وقوم کے معمار ہو ا کرتے ہیں ہمیں اقبال کے پیغام کو اپنے افعال وکردار کا پیرہن بنانا چاہیے اور مہذب اقوام میں خو د کو شما ر کر انے کے لیے ان کے پیغام کو اپنا شعار بنا نا چاہیے
کہ افراد کی اصل زینت ملت ہے اس کے بغیر وہ کچھ نہیں یعنی
ملت کے ساتھ رابطہ استور رکھ
پیو ستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ