توحید کا تصور دنیا کے تمام آسمانی ادیان میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے، مگر قرآنِ حکیم میں یہ تصور جس جامعیت، وضاحت اور معنوی گہرائی کے ساتھ بیان ہوا ہے، وہ انسانی عقل و قلب کو ایسا نور عطا کرتا ہے جو باطن کے اندھیروں کو منور کر دیتا ہے۔ قرآن میں توحید کے تین نمایاں مظاہر ایسے ہیں جو اس فکرِ توحید کو تین جہات سے مکمل کرتے ہیں۔ ذات، قول اور عمل۔ گویا قرآن توحید کو صرف ماننے یا کہنے کا نہیں، جینے اور برتنے کا نام ٹھہراتا ہے۔
اسم ”اللہ” — یہ محض ایک اسم نہیں، بلکہ کائناتی حقیقت اور عرفانی فلسفے کا نکتے آغاز ہے۔ لفظ ”اللہ” کے حروف میں ایک پوشیدہ ترتیبِ معانی ہے:”الف“ ابتدا، ظہور، نمود۔ مگر ہر ظاہر چیز زمان و مکان کی قید میں ہے اور لازمی طور پر فانی ہے۔ ظاہر کو صرف جز وقتی زندگی حاصل ہے۔ ”لام“ نفی، انکار۔ یہ ہر غیر حقیقی، غیر ابدی وجود کا رد ہے۔”ہ“ حقیقتِ باقی، باطن، ماورائی وجود جو مقام لاہوت ہے دائمی ہے یعنی ”ھُو“ یا حی یا قیوم ہے۔
یوں اسم”اللہ“ درحقیقت اپنے اندر نفی و اثبات ہے۔جب ”الف“ (ظاہر) اور ”لام“ (نفی) باہم جمع تفریق کے بعد بیلنس ہو جاتے ہیں تو صرف”ھُو“ باقی بچتا ہے، وہی جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔یہ فکری نقطہ حضرت ابراہیمؑ کے قصے میں عملی صورت میں سامنے آتا ہے، جب انہوں نے سورج، چاند، اور ستارے جیسے روشن اور دلکش مظاہر کو دیکھا تو سوچا، شاید یہی میرے رب ہیں۔ لیکن جب وہ سب ڈھل گئے، چھپ گئے، فنا ہو گئے، تو آپؑ نے اعلان کیا ”جو غائب ہو جائے، وہ میرا رب نہیں ہو سکتا۔
یہ عرفان ہمیں سکھاتا ہے کہ اللہ وہی ہے جو ”لا زوال“ہے، جس پر فنا کا کوئی سایہ تک نہیں پڑتا۔ یہی عرفان ہمیں سکھاتا ہے کہ جو باقی ہے، جو قائم ہے، وہی رب ہے، وہی”اللہ“ ہے۔ 2–لا الٰہ الا اللہ: کلمہ طیبہ صرف ایک جملہ نہیں بلکہ انسان کی داخلی و خارجی آزادی، روحانی خودی، اور فکری انقلاب کا منشور ہے۔ یہ صرف ایک عقیدہ نہیں بلکہ ایک انقلاب ہے۔یہ کلمہ دراصل ایک داخلی ہجرت ہے باطل سے حق کی طرف، کثرت سے وحدت کی طرف۔ یہ کلمہ دو حصوں دو جملوں پر مشتمل ہے۔ ”لا الٰہ“ ہر جھوٹے خدا، ہر وقتی اقتدار، اور ہر خود ساختہ اقتدار کی مکمل نفی ہے۔ یہ معرفت کی وہ تلوار ہے جو دل میں چھپے بتوں کو کاٹ ڈالتی ہے۔ جیسے زمین کو قابلِ کاشت بنانے سے پہلے اس میں سے جنگلی نباتات، خود رو گھاس پھونس کو نکالا جاتا ہے، ویسے ہی دل سے جھوٹے معبودوں کی جڑیں کاٹنا بھی لازم ہے۔ ضروری ہے کہ دل کی زمین پر پھیلے خواہشات کے جنگل کا نفسانی نفی کے ذریعے صفایا کیا جائے۔ اس لحاظ سے نفی کا سادہ مفہوم تو صفائی ہی ہوا۔
”الا اللہ“: وہ اثبات جو ہر نفی کے بعد نمو کرتا ہے۔ یہ اثبات کے میٹھے پانیوں کا بہتا ہوا ایک بے کنار سمندر ہے۔ یہ سرتسلیم خم کرنا ہی نہیں، بلکہ خودی کی پرواز ہے ایک باطن کی بلندی، ایک روحانی معراج ہے۔ یقیناً، یہی کلمہ ہے جو انسان کو سر اٹھا کر جینے کا سلیقہ دیتا ہے۔ دنیا کے ہر جھوٹے سہارے سے بے نیاز ہو کر صرف ایک ذات پر بھروسہ کرنے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔ یہ کلمہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اصلی منفعت حقیقت تک رسائی ہے جو انکار سے شروع ہو کر اثبات پر مکمل ہوتی ہے۔ جس زمین سے پہلے خود رو بوٹیوں کو کاٹ کر صفائی کی گئی تھی اس پر اب محنت کی جائے، ہل چلایا جائے، پانی دیا جائے بیج بویا جائے رکھوالی کی جائے پھر وہی زمین فصلوں سے لہلہانے لگتی ہے خوبصورت رنگوں خوشبوؤں اور ہریالی کو زیب تن کر لیتی ہے۔ سج سنور جاتی ہے۔ مہک اٹھتی ہے۔ ہر نظر کو خیرہ کرنے لگتی ہے۔ یہی تو اثبات کی تکمیل ہے۔ فصل ہوئی مگر خود رو نہیں مالک کی مرضی کی اور محنت کی فصل، جو معبود برحق کا بلواسطہ یا بلا واسطہ اقرار ہے۔
یہ صرف اللہ کی حاکمیت کا اقرار، اس کی وحدانیت کا اثبات، اور اس کے سوا ہر شے کی بندگی سے انکار ہے۔ یہ کلمہ انسان کو آزادی دیتا ہے، نہ کسی فرعون کا بندہ، نہ کسی خواہش کا غلام، نہ کسی مخلوق کا پجاری۔ اس کلمے کا اقرار گویا ایک داخلی انقلاب ہے، جو انسان کو”عبد“سے“آزاد بندہ“ بناتا ہے، بشرطیکہ وہ خود کو مکمل طور پر اللہ کی اطاعت میں دے دے۔
سورت العصر۔ کلمہ طیبہ کا عملی منشور ہے۔ قرآن کی یہ سورت صرف تین آیات پر مشتمل ہے، مگر اپنی معنوی گہرائی میں پورے قرآن کا نچوڑ ہے۔ یہ پورے قرآن پاک کا عطر ہے۔ یہ سورت ہمیں بتاتی ہے کہ انسانی زندگی کا سب سے بڑا بحران ”خسارہ“ ہے۔ یعنی مقصدِ زندگی سے محرومی، منزل سے چشم پوشی، وقت کا زیاں، اور راہِ حق سے روگردانی۔ یہ سب باعث خسارہ ہیں اور خسارہ ہی وہ راستہ ہے جو جہنم تک لے جاتا ہے۔ یہ سورت دراصل کلمہ طیبہ کی عملی شرح ہے۔ اگر بغور جائزہ لیں تو اس سورت کا پہلا درجہ ایسے لوگوں کا ہے جنہوں نے کلمہ کی تکفیر (نفی) کی وہی اللہ اور دین سے دور اور خواہشات کا قیدی بن کر خسارے سمیٹتے ہیں۔
دوسرے وہ جو کلمہ پر مکمل ایمان لائے۔ حق کے اثبات میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر پر مبنی ایمانی عملیات پر کار بند ہو کر نفع حاصل کرتے ہیں۔ تو بطور مجموعی یہ سورت کلمہ (نفی اثبات) کی ہی عملی صورت ہے۔ جس کے جزو نیچے بتائے گئے ہیں۔”ایمان“ الا اللہ کا اقرار۔ یعنی نفی اثبات + –=0”عملِ صالح“یعنی اس اقرار کے مطابق زندگی گزارنا۔”تواصوا بالحق“دوسروں کو بھی اس سچائی کی طرف بلانا۔”تواصوا بالصبر“ اس راہ میں ملنے والی تکالیف پر صبر کرنا۔مندرجہ بالا چار صفات وہ ہیں جو انسان کو ”خسارے“ سے بچاتی ہیں اور خسارے میں کون لوگ ہیں؟ وہی جو توحید، نبوت اور کلمے کی نفی کرتے ہیں، وقت کو کھیل تماشے میں ضائع کرتے ہیں، خواہشات کے غلام بن کر باطل معبودوں کی پیروی کرتے ہیں۔ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی گمراہی یہی رہی ہے کہ انسان نے مٹی کے پتلے، اپنے جیسے بندوں، خواہشات، حکمرانوں، اور حتیٰ کہ اپنے نفس کو معبود بنا لیا۔ قرآن ان سب کی نفی کرتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:”کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا لیا؟” (الفرقان: 43)
حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ اسی کلمے اور سورت عصر کی دوگانہ منظر افرینی ہے۔ ایک کنویں سے نکل کر تخت پر بیٹھنے والا وہی شخص ہے جس نے ہر مقام پر صرف اللہ کی اطاعت کی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے سر بلندی بخشی، اس کے مخالفوں کو اس کے سامنے جھکایا، اور دنیا کو دکھایا کہ ”جو اللہ پر بھروسہ کرے، وہی کامیاب ہے۔” اور جو غیر اللہ کو پوجے، وہ خاسر ہے۔ قرآن فرماتا ہے:”بیشک وہ لوگ خسارے میں رہے جنہوں نے قیامت کے دن اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈالا۔“ (الزمر۔)
یہ چاروں اجزاء دراصل کلمہ طیبہ کی عملی تفسیر ہیں۔ جو ”لا” سے جھوٹے معبودوں کا انکار کرے، اور ”اللہ” کو حق مانے، وہی ایمان لاتا ہے، نیک عمل کرتا ہے، حق کی بات کہتا ہے اور مشکلات پر صبر کرتا ہے۔ اس طرح نفی اثبات ایک ہمہ گیر فکری وحدت ہےاسمِ”اللہ“ہمیں بتاتا ہے:”جو ظاہر ہے وہ فانی ہے اور جو باطن ہے وہی باقی ہے۔“کلمہ طیبہ سکھاتا ہے:”باطل کی نفی اور حق کا اثبات ہی اصل عقیدہ ہے۔“سورت العصر واضح کرتی ہے:”ایمان اور صبر پر مبنی عمل ہی وہ راہ ہے جو انسان کو خسارے سے بچاتی ہے۔“اسمِ اللہ، کلمہ طیبہ، اور سورۃ العصر، یہ تینوں مل کر اسلامی فکر کا وہ جامع اور ہمہ گیر نظام تشکیل دیتے ہیں جو انسان کو محض مقلد یا عابد نہیں، بلکہ ایک باشعور، باوقار اور باعمل مومن بننے کی دعوت دیتے ہیں۔ یہ فکر انسان کو اندھی تقلید سے نکال کر شعور، آزادی، اور عمل کی راہ دکھاتی ہے؛ وہی راہ جو اسے ثُمَّ رَدَدْنَاہُ أَسْفَلَ سَافِلِینَ (التین: 5) کی تاریک گہرائیوں سے نکال کر اطاعت، بلندی، فلاح اور نجات کے ارفع مقام تک لے جاتی ہے۔ یہ تینوں اجزاء مل کر ایک ایسا انسان تراشتے ہیں جو وقت کی قید میں رہتے ہوئے ماورائے وقت کی حقیقتوں کو جاننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔، اور یہی اس کی اصل معراج ہے۔ یہی صراطِ مستقیم ہے، وہی راہِ نبوت، جو تمام انبیاء کی میراث ہے اور جس میں تمام صفاتِ حمیدہ کا جوہر پوشیدہ ہے۔
”اللہ“، یہ نام ایک ایسا بامعنی، ڈیجیٹلی کوڈڈ لفظ ہے، جس میں پوری کائنات سمیٹ دی گئی ہے۔ کلمہ طیبہ ایک قانون ہے، نفی اثبات کا ایک الٰہی ضابطہ، جبکہ سورۃ العصر اعمال کے نتائج کی آئینہ دار ہے۔ یہ تینوں درحقیقت نفی و اثبات کی تین جہتیں ہیں، جنہیں ہم آسانی سے ”پلس” اور ”مائنس” کی تمثیل سے بھی سمجھ سکتے ہیں۔ ان کا باہمی ربط ایسے ہے جیسے روح، وجود، اور جزا یا عقل، علم، اور عمل کی مثلث۔ اس ترکیب کا حتمی نتیجہ وہ ”صفر“ ہے جو دائم اور باقی ہے۔ جس کی اصل قیمت کسی کو معلوم نہیں، لیکن جس کے ساتھ لگنے سے ہر عدد کی قدر کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ یہی وہ راز ہے کہ انسان جب تک اپنے محبوب کے رنگ میں رنگ نہیں جاتا، سچا عاشق نہیں کہلا سکتا۔ اور اگر وہ اللہ سے عشق کا دعویٰ رکھتا ہے، تو اسے اللہ کے اسمِ مبارک کی آخری ”ہ” کی مانند ہونا ہوگا، جو پاک، دائم اور بیمثال ہے۔اللہ ہمیں اپنی کثیر رحمتوں کے انمول خزانوں سے بے حساب نوازے۔ ہر لحظہ نوازے۔۔امین واللہ أعلم۔