288

اس کے بعد شایدوقت نہ رہے

ایک کتاب میں بہت مزے کی بات پڑھی توسوچاکہ ذکر کرتاچلوں۔امریکہ کے کسی شہرمیں ایک عورت نے ایک آدھ کلومیٹرکے فاصلے پرموجودگوشت کی دکان پرفون کرناچاہاتوکافی دیرباربارڈائل کرنے پربھی فون نہ ملا۔اس کے بعداس نے اپنی والدہ سے گپ شپ کے لئے اسے فون کیاجولندن میں رہتی تھی۔فون فوراً ً مل گیا۔مذکورہ عورت نے باتوں باتوں میں والدہ سے کہاکہ میں گوشت منگوانے کے لئے ایک گھنٹے سے دکاندارکوفون کررہی ہوں مگررابطہ نہ ہوسکا۔اس کی ماں نے کہاکہ میں یہاں سے فون کرکے اسے کہہ دیتی ہوں۔لہٰذااس کی ماں نے لندن سے فون کیاتوفون فوراً ً مل گیا۔امریکہ میں گوشت کی دکان کوجوپیغام مقامی ٹیلی فون سے نہ مل سکاوہ لندن کے ٹیلی فون سے فوراً ً مل گیا۔یہ لطیفہ زندگی کے ایک خوبصورت پہلوکوظاہرکرتاہے کہ کبھی کبھی دورکاراستہ عملًا بہت قریب ہوتاہے۔کسی مقصدکوجلدحاصل کرنے کے لئے صرف ظاہری اسباب نہیں بلکہ دیگر بے شماراسباب کوبھی دیکھناہوتاہے۔اکثراوقات جوہمیں نظرآرہاہوتاہے وہ حقیقت نہیں ہوتی۔ بعض اوقات دورکاراستہ نزدیک اورنزدیک کی منزل کوسوں دورہوجایاکرتی ہے۔ انسان ایک دکان ہے جس میں بے شمارخیالات دن رات رقص کرتے رہتے ہیں۔یہ خیالات جتنے اچھے ہوں گے اس انسان کے دل کی دکان کاسامان اتناہی خوبصورت اور پائیدارہوتاہے۔اوریہ خیالات جتنے بدنمااوربرے ہوں گے اس انسان کے قلب کی دکان میں موجود ہر شے ناقص اور ناپائیدار ہو گی۔ کہا جاتا ہے کہ عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ انسان اپنے اندرجس طرح کاگمان رکھتاہے وہ ویساہی وصول کرتاہے۔گمان جتنا اچھاہوگاحصول اتناہی اچھا،پیارااورپائیدارہوگا۔اوراس کے برعکس بدگمانی کسی ایک انسان کی زندگی سے لے کرپورے گھر،خاندان اوراس سے جڑے ہوئے ہرایک رشتے کو نقصان پہنچاکرتمام ترامیدوں پرپانی پھیردیتی ہے۔اگرکوئی انسان دل کابہت اچھا اوردوسروں کے لئے بہترسوچنے والاہوتووہ خودبھی بہترین نتائج حاصل کرتاہے۔ایسے افراد ہوتے توچندایک ہیں مگرکسی قوم یاملک میں ایسے افرادکی موجودگی سے وہ قوم خوش وخرم اور ترقی کی منازل طے کرتی ہوئی پائی جاتی ہے۔اس کی بہترین مثال کسی بھی ملک کے بنانے والوں کی دی جاسکتی ہے۔جس میں قائداعظمؒاوران کے ساتھی جنہوں نے پاکستان کاخواب دیکھ کرپاکستان بنانے میں اپناسب کچھ قربان کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اورآج پاکستان ہمارااپناہے۔یہ لوگ زیادہ نہیں تھے۔یہ توگنتی میں اتنے تھے کہ انگلیوں پرگنے جاسکتے تھے مگران کی سوچ نے وہ کردکھایاکہ شایدکروڑوں افرادمل کربھی نہ کر سکتے۔ اس کے بعدپوری قوم کسی نہ کسی صورت میں قائداعظم بنتی چلی گئی۔یعنی اس تحریک نے تحریک پاکستان کاروپ دھارلیااورپھرایک وقت آیاکہ تحریک پاکستان حصول پاکستان بن گئی اور۷۴۹۱؁ء میں مسلمانوں کوالگ اوراپناملک مل گیاجسے پاکستان زندہ باد کہا جاتاہے۔ آب زم زم کے چندقطرے سینکڑوں لیٹرپانی میں ملاکرہزاروں افرادکوشفایاب کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح چندافرادجب کروڑوں کے مجمع میں اپناپیغام پہنچاکرکامیاب ہوجائیں تووہ
دھرتی ناکامیوں سے نکل کرکامیابیوں کی طرف رواں ہوجایاکرتی ہے۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ کبھی کبھی مشکل راستہ آسان ترین ثابت ہوتاہے اورکبھی کبھی بظاہرآسان اور مختصر سفر کوسوں میل دوری اختیارکرلیتاہے۔سڑک پرسفرکرنے والاپہاڑوں پرچلنے والے سے پہلے اپنی منزل پرپہنچ جاتاہے چاہے سڑک کاسفرسینکڑوں میل لمباہواورپہاڑی سفرچندمیلوں کی دوری پرہی کیوں نہ ہو۔انسان کوہرکام کرنے کے لئے تدبیرکی ضرورت پیش آتی ہے۔اسی لئے کہاجاتاہے کہ”تدبیربدل دیتی ہے تقدیر“۔یعنی تقدیرکوکوسنے والے کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔ہم نے راتوں رات ہاتھوں کی لکیروں کوبدلتے ہوئے دیکھا۔ایک انسان کے ہاتھوں کی لکیریں اس کے ماضی اورمستقبل کی عکاس ہوتی ہیں مگرجوانسان محنت کرتاہے وہ اپنی قسمت کوبدل دیاکرتاہے۔ایک قوم اپنے مادروطن کوترقی کی بلندترین منزل تک لے جاسکتی ہے بشرطیکہ وہ ہروقت قسمت کارونارونے کی بجائے اللہ پراعتماداوریقین کے ساتھ ساتھ محنت کواپنااوڑھنابچھونابناکرآگے بڑھتی چلی جائے تودنیاکاکوئی ایٹم بم،کوئی اسلحہ یاباروداورکوئی بھی چال اس کاکچھ بھی نہیں بگاڑسکتی۔شارٹ کٹ کے عادی افرادشارٹ کٹ زندگی تک جاپہنچتے ہیں اورانہیں پتہ ہی نہیں چلتا۔جہاں سست رفتاری انسان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے،بالکل ایسے ہی تیزی اورجلدبازی یاشارٹ کٹ کسی انسان،گروہ یاکسی قوم کوناکامیوں کے سمندرمیں دھکیل سکتی ہے۔کسی زمانے میں ترکی کے عوام نے یورپ میں شامل ہونے کے لئے اپنے لباس کوکم کردیامگراس جلدبازی اورشارٹ کٹ نے انہیں مایوسی کے سواکچھ نہ دیا۔مگرگزشتہ دنوں ایک دن کی آمریت کے سامنے جب وہ سیسہ پلائی دیواربنے تومعلوم ہواکہ وہ واپس پلٹ چکے ہیں۔اورپھراقوام عالم نے دیکھاکہ اللہ کی ذات نے انہیں کامیاب بھی کیا۔راتوں رات آمریت کاخاتمہ کرکے دنیاکاسب سے بڑاانقلاب ان کے حصے میں آیا۔اوریہ سب کچھ دیکھ کرمجھے بہت خوشی ہوئی۔کہنے کامطلب یہ ہے کہ کبھی کبھی انتہائی مشکل اورجان لیوااقدام کرکے قوموں نے یہ ثابت کیاکہ جس کام کے لئے جان کانذرانہ پیش کردیاجائے وہ منزل حاصل ہوکرہی رہتی ہے۔آج کے اس فسادی دورمیں ہرطرف افراتفری کے حالات ہیں مگران حالات میں بھی ہارنہ ماننے والے موجودہیں۔ان حالات میں بھی وہ لوگ موجودہیں کہ جن کے ہونے سے باقی افراد کی خطائیں اورسستیاں معاف کردی جاتی ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جوکسی قوم کوبچانے کے لئے پیداہوئے اوراس وقت تک آتے رہیں گے جب تک ہرطرف سچ کابول بالانہیں ہوجاتا۔اس سلسلے میں اقوام عالم کے بڑے بڑے معرکوں اورانقلابات سے لے کرپاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے تک تمام حقائق ہمارے سامنے ہیں۔اس وقت پوری دنیامیں دہشت گردی نے قدم مضبوط کررکھے ہیں مگرثابت قدم اقوام ان مصائب سے گھبرائے بغیراپناکام جاری وساری رکھے ہوئے ہیں۔اورہروہ حربہ اور قدم اٹھایا جا رہا ہے جوکسی قوم کی بقاء کے لئے بہتریابہترین ثابت ہو سکتا ہے۔پاکستانی قوم نے اس رہ گزرپراپنے ہاتھ لہولہان کئے،وجودریزہ ریزہ کئے، ماؤں نے اپنے جواں بیٹوں کی قربانیاں دیں،لاکھوں سہاگنوں کے سہاگ اجڑے، بہنوں کے سروں سے دوپٹے نوچے گئے،خون کی ندیاں بہادی گئیں توتب جاکرہمیں یہ پاکستان ملا۔ اب ہمارایہ فرض ہے کہ کوئی دورکاہی سہی،بہت دورکاہی راستہ اپنایاجائے مگر پائیدارراستہ اپناکراس قوم کوتباہی اوربربادی سے بچایاجائے۔اوراس قوم کے لئے یہ پہلا فرض ہے کہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کرہرباطل قوت کے سامنے ڈٹ جائے کہ یہ وقت بہت نازک ہے۔یہ وقت بہت بے رحم وقت
ہے۔یہ لمحات بہت فیصلہ کن لمحات ہیں کہ ان کے بعد شاید وقت نہ رہے۔مگروقت رہے گااورہم کامیاب ہوں گے کیونکہ”اللہ بہت بڑاہے۔“

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں