زندگی میں ہونے والے کچھ واقعات انسان کو اضطراب کا شکار کر دیتے ہیں خصوصی طور پر جب بھی پاکستان میں کوئی صحافی شہید کیا جاتا ہے تو صحافتی کمیونٹی میں عدم تحفظ کا شدید احساس پیدا ہوتا ہے جو صحافیوں کی پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی کے لیے ناصرف مشکلات کا باعث بنتا ہے بلکہ ان کے لیے فیلڈ میں کام کرنا اور بھی مشکل بنا دیتا ہے پاکستان بدقسمتی سے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں پر جرنلسٹ کمیونٹی کو انتہائی مشکل حالات میں اپنی فرائض سر انجام دینے پڑتے ہیں گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان میں صحافیوں کی غیر فطری اموات دیگر خطے کے دیگر ممالک سے انتہائی زیادہ ہیں ہر چند سال بعد کسی نہ کسی بڑے صحافی کو شہید کردیا جاتا ہے اور اس پر بنائے جانے والے تحقیقاتی کمیشن ایسی مبہم رپورٹ پیش کرتے ہیں جس کے بعد تحقیقات آگے نہیں بڑھ سکتی مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں میں پاکستان کے نامور صحافی سلیم شہزاد کو کو اغواء کے بعد قتل کر دیا گیا تھا اور صحافی کمیونٹی نے ان کے اس بہیمانہ قتل کے خلاف احتجاج کیا تھا پریس کلب روات کی جانب سے بھی ایک مظاہرے کا اہتمام کیا گیا جس میں روات، مندرہ، کلر سیداں،ساگری، گوجرخان اور گرد و نواح کے علاقے کے صحافیوں نے شرکت کرکے اپنے صحافی بھائی کی اس بہیمانہ قتل کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرایا تھا اسی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے ہمارے درینہ دوست مرحوم جاوید اقبال بٹ نے خطاب کرتے ہوئے اس وقت کے وزیر داخلہ رحمان ملک سے صحافیوں کی ٹارگٹ کلنگ کیخلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا تھا اس سے چند دن پہلے رحمان ملک نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ صحافیوں کو حکومت کی جانب سے اسلحہ فراہم کیا جائے گا تاکہ وہ اپنا دفاع کر سکیں مرحوم جاوید اقبال بٹ نے اپنا قلم اٹھا کر کہا کہ صحافیوں کو کسی اسلحے کی ضرورت نہیں ان کے لئے ان کا قلم ہی سب سے بڑا ہتھیار ہے جس سے وہ اپنا دفاع کریں گے اس قتل کے واقعہ پر ملک بھر کے صحافیوں نے شدید احتجاج کیا تھا جس کے بعد ایک اعلی سطح کا تحقیقاتی کمیشن بنایا گیا جس کی رپورٹ آج بھی سرکاری دفاتر کی دھول چاٹ رہی ہے گزشتہ دنوں پاکستان کے نامور صحافی ارشد شریف کو کینیا میں انتہائی بے دردی کے ساتھ بہیمانہ طریقے سے قتل کر دیا گیا جس پر پاکستان کی صحافی برادری شدید احتجاج کر رہی ہے ہے اور اس احتجاج میں نہ صرف صحافی برادری بلکہ سول سوسائٹی کی بھی حمایت ان کو حاصل ہے اب یہ سوال لوگوں کے ذہنوں میں بڑی تیزی کے ساتھ ابھرنا شروع ہو گیا ہے کہ آخر کار پاکستان میں سچ بولنے والوں کو کیوں موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے آخر کیوں شہید ہونے والے صحافیوں کے قتل کی تحقیقات کو داخل دفتر کر دیا جاتا ہے؟ آخر کار کے حوالے سے صحافیوں کی طرف سے کیے جانے والے سوالات کے جوابات نہیں دیے جاتے؟؟دوسری طرف پاکستانی حکومت نے کینیا میں صحافی ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لیے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنانے کا اعلان کیا گیا ہے وزارتِ داخلہ سے جاری نوٹیفیکیشن کے مطابق یہ ٹیم ایف آئی اے کے ڈائریکٹر اطہر وحید، آئی بی کے ڈپٹی ڈی جی عمر شاہد حامد اور آئی ایس آئی کے لیفٹیننٹ کرنل سعد احمد پر مشتمل ہو گاسرکاری نوٹیفیکیشن کے مطابق یہ ٹیم فوری طور پر کینیا جائے گی اور حقائق کا تعین کرنے کے بعد اپنی رپورٹ وزارتِ داخلہ کو جمع کروائے گی پاکستانی افواج کے ترجمان نے کہا تھا کہ کینیا میں پاکستانی صحافی ارشد شریف کی ہلاکت کی جامع تحقیقات کے ساتھ ساتھ فوج پر بے بنیاد الزام تراشی کرنے والے عناصر کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی سطح پر پاکستان کے صحافیوں کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف نا صرف جامعہ تحقیقات کی جائیں بلکہ ان ہونے والی تحقیقات کی رپورٹ بھی منظر عام پر لائی جائے تاکہ پاکستانی عوام کو بھی یہ پتہ چل سکے پاکستان میں سچ بولنے اور لکھنے والوں کو کیسے آسانی کے ساتھ ٹارگٹ کرکے خاموش کروا دیا جاتا ہے حکومتی سطح پر بھی صحافیوں کے ساتھ ہونے والی اس زیادتی کا کا نوٹس لیتے ہوئے ایسے عناصر کو سامنے لایا جائے جو صحافیوں کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ملوث ہیں ارشد شریف کی ٹارگٹ کلنگ آج پاکستانی پر کئی سوالات کو چھوڑ کر جا رہی ہے صحافی کمیونٹی کو یہ اندیشہ ہے کہ ماضی کی طرح ارشد شریف کا کیس بھی سرکاری دفاتر کی فائلوں کی نظر ہو جائے گا کیونکہ ماضی میں ہونے والے واقعات میں سے اب تک کسی ایک بھی واقعے کو منطقی انجام تک نہیں پہنچایا جا سکا
170