481

اراضی پنڈ کے گجر گھرانے کی کتھا

راقم اکثرو بیشتر پنڈی پوسٹ کے پلیٹ فارم سے مختلف سماجی سیاسی مذہبی علمی شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والی علاقائی شخصیات کے تعارف پر مبنی تحاریر لکھتا آیا ہے جس میں ان شخصیات کے حوالے سے کافی مستند مواد تک رسائی اور تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے آج 1947میں قیام پاکستان کے موقعہ پر بھارت سے نقل مکانی کر کے موجودہ تحصیل کلرسیداں کی یونین کونسل بشندوٹ کے گاؤں اراضی خاص میں آباد ہونیوالے اس واحد گجر گھرانے کی داستان قارئین کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں جو دین الٰہی و صوم صلات کا پابند اور شرافت میں آج بھی علاقے کی عوام میں اپنا ایک خاص مقام رکھتا ہے تاہم اس گھرانے کا تذکرہ کرنے سے قبل تاریخ سے شغف رکھنے والے قارئین کیلئے گجر قوم کے مختصر تعارف اور پس منظر کا احاطہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں گجر قوم حضرت نوح علیہ السلام کے پڑپوتے کارتھ کی اولاد سے ہیں یعنی کارتھ بن عمر بن یافث بن نوع علیہ السلام جبکہ گجر برادری کا قدیم ترین وطن ترکی اور عراق سے ملحقہ ریاست جارجیا کا شہر گرجستان سے ہے تاہم بارہ سو سال قبل گجروں کا اپنا وطن شمالی ہندوستان یعنی راجھستان گجرات،کشمیر چین کے مشرقی علاقے ازبکستان پر مشتمل تھا جو گجر دیش کے نام سے تھا جنکی اپنی زبان گوجری تھی جبکہ غلہ اورجانور انکی خاص علامت تھے اس لیے انہوں نے مستقل یہی پیشہ اختیارکیا،بائیس مارچ کو انٹرنیشنل گجر ڈے بھی منایا جاتا ہے نبی آخر الزماں کے دور میں حضرت دیہی کلبی سے گجر قبائل کا شجرہ ملتا ہے آپ کا قبیلہ بنو کلاب کے نام سے مشہور تھا

کلاب لفظ کلب کی جمع ہے کلب عربی زبان میں کتے کو کہتے ہیں حضرت دیہی کلبی نے چونکہ جانوروں کے ریوڑوں کیساتھ کتے بھی پال رکھے تھے جو آپکی وجہ شہرت بھی بن چکے تھے اسی لیے آپکے قبیلے کو بنو کلاب یعنی کتوں والا قبیلہ کہا جانے لگا،قوم گجر کے مشہور قبائل میں کھٹانہ کسانہ مونن طاس،چوہان،کالس،نون، کے علاؤہ بہت سے قبائل شامل ہیں یوسی بشندوٹ کے گاؤں اراضی پنڈ میں آباد قیام پاکستان کے وقت نقل مکانی کرنے اور واحد گجر گھرانے کی داستان قارئین کے مطالعہ کیلئے حاضر خدمت ہے اراضی پنڈ میں آباد گجر گھرانے کے جدامجد میاں کالو خان موجودہ بھارت کی ریاست نابھہ کی تحصیل بھگوان یا بھگوانی موضع کتوڑ میں گجر قوم کے مونن قبیلہ میں پیدا ہوئے خاندانی روایات یعنی کاشتکاری اور غلہ بانی کے برعکس والدین نے میاں کالو کو رسمی تعلیم دلوانے کا فیصلہ کیا اور انہیں مکتب میں داخل کرا دیا گیا ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپکا رحجان گلہ بانی اور زراعت کی جانب برقرار رہا تاہم بنیادی تعلیم کے حصول کی وجہ سے آپ لکھنا پڑھنا بھی جانتے تھے بریں وجہ آپ نے جانوروں سے متعلقہ کتب کا مطالعہ شروع کر دیا اور پالتو جانور یعنی گائے بھینس گھوڑے، ہاتھی اور بھیڑ بکریوں کے امراض کی تشخیص ادویات نسخہ جات اور علاج معالجے میں کافی عبور حاصل کر لیا اور جانوروں کے امراض کی تشخیص وعلاج کے سبب طول وعرض میں شہرت حاصل کر لی آپکی کی شہرت اس وقت کی پٹیالہ ریاست کے مہاراجے تک جا پہنچی جس نے آپکو اپنے دربار میں بلا کر ناظم برائے امور شاہی حیوانات کے عہدے کی پیشکش کی جو کہ آپ نے قبول کی 1842 میں میاں کالوخان کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی جسکا نام چانن دین رکھا گزرتے وقت کیساتھ انکی ملازمت معقول آمدن کا سبب بنی تاہم فرائض کی انجام دہی میں نابھہ سے پٹیالہ آنا جانا کافی تکلیف دہ سفر تھا اس لیے آپ نے اپنے آبائی گاؤں کتوڑ سے نقل مکانی کی اور پٹیالہ کی تحصیل املوہ کے موضع سراج پور میں رہائش اختیار کی بعد ازاں یہی پر اڑھائی مربع زمین خرید کی جس کے اردگرد پختہ دیوار آموں کے باغ اور پختہ مکانات تعمیر تھے، چانن دین میاں کالو خان کی اکلوتی اولاد جبکہ مولا بخش اور میاں صدر دین تھے مگر یہ دونوں انکے سگے بھتیجے نہیں تھے کالو خان کی اکلوتی اولاد چانن دین نہ صرف ریاست نابھہ پٹیالہ بلکہ قیام پاکستان کے بعد بھی نقل مکانی کے بعد مذہبی و سماجی سرگرمیوں پر حاوی رہے ضلع راولپنڈی کی تحصیل کہوٹہ موجودہ تحصیل کلرسیداں کی یونین کونسل بشندوٹ کے گاؤں موضع اراضی پنڈ میں سکونت اختیار کی چانن خان کی والدہ محترمہ قیام پاکستان سے محض ایک سال قبل 1946 کو پٹیالہ میں خالق حقیقی سے جا ملیں

چانن دین نے موضع کتوڑ نابھہ اور موضع سراج پور پٹیالہ املوہ میں چچا زاد مولابخش سے مل کر خدمت خلق کے جذبے کے تحت مسافر خانہ اور لنگر خانہ قائم کیا اور ساتھ ہی دعوت دین کی تبلیغ دینا بھی شروع کر دی آپ اور آپکے چچازاد بھائی مولا بخش اور میاں صدر دین چشتیہ نظامیہ سلسلے میں بیعت تھے جو کہ میاں امجد علی میاں رحیم بخش سے کلیانہ شریف انڈیا سے ہوئے جنکا سلسلہ نسب خواجہ نظام الدین اولیاء اور خواجہ معین الدین چشتی اجمیری سے جا ملتا ہے مولا بخش میاں رحیم بخش کے خلیفہ مجاز تھے اور قطب کے رتبے پر فائز رہے انکا مزار مبارک آج بھی مرجع خلائق ہے اور لوگ پوری عقیدت واحترام سے انکا سالانہ عرس تحصیل املوہ پٹیالہ میں مناتے ہیں اسی دوران مملکت خداد پاکستان کا قیام عمل میں آیا میاں مولا بخش کے بھائی میاں صدر دین چانن دین نعمت اللہ اور انکے بیٹے شرف الدین نے نقل مکانی کر کے پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھا اور موجودہ تحصیل کلرسیداں کی یونین کونسل بشندوٹ کے گاؤں اراضی پنڈ میں رہائش پذیر ہوئے نعمت اللہ کے دوسرے بیٹے کا نام شہاب الدین تھا جو لڑکپن میں دنیا فانی سے کوچ کر گئے تھے،آئندہ شمارے میں اسی تحریر کے تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے ان شاء اللہ دوسری قسط پر مبنی تحریر قارئین کے مطالعہ کیلئے دستیاب ہوگی۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں