،فارماسسٹ مریض اور گومل یونیورسٹی کا احسن اقدام

فارماسسٹ، مریض گومل یونیورسٹی کا احسن اقدام۔
از قلم؛ ڈاکٹر برکت علی خان (ڈین فیکلٹی آف فارمیسی) ۔

فارماسسٹ کو ادویات کا ماہر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ادویات کے خام مال سے لے کر ان کی تیار شدہ فائنل ڈوزج فارم تک ذمہ دار ہوتا ہے۔
پچھلے 20 سالوں میں فارماسسٹ کا کردار صنعتی فارماسسٹ سے کلینیکل فارماسسٹ میں منتقل ہوا جہاں وہ براہ راست مریضوں کی صحت سے جڑا ہوا ہے۔ کلینیکل یا کمیونٹی فارماسسٹ کا سب سے بڑا کردار مریضوں کو مشاورت فراہم کرنا ہے۔ ایک فارماسسٹ جانتا ہے کہ ادویات کا بنیادی جز کیا ہے اور اس جز کے ضمنی اثرات کیا ہوں گے؟
مختصر یہ کہ ایک فارماسسٹ ادویات کے ساتھ ایسے کھیل رہا ہوتا ہے جیسے والدین بچوں کے ساتھ کھیل رہے ہوتے ہیں۔
یہ کل شام کی بات ہے ، میں ڈی ایچ کیو اسپتال کے سامنے اپنے شہر کے ایک بہت ہی مشہور و معروف میڈیکل اسٹور سے کچھ دوائیں لے رہا تھا۔ وہاں کافی رش تھا اور دکان کے اہلکار بہت مصروف تھے یہاں تک کہ ادویات کے بل اور ادویات کے نسخے کے تبدیل ہونے کا قوی امکان تھا۔ وزیرستان کا ایک شخص وہاں موجود تھا اور دکاندار سے دوائیں لے رہا تھا۔ وہ ایک نفسیاتی مریض کے ساتھ بطور معاون آیا تھا اور اس کے مریض کو نفسیاتی ادویات جیسے اولینزیپاُن، فلوگزیتین، کاربامیزاپین اور الپروزیلام تجویز کیے گئے تھے۔ چونکہ وہ ایک بہت دور کے علاقے سے تھا لہذا وہ تمام مقررہ ادویات کے 5،5 پیک لے رہا تھا۔ دکاندار نے کچھ لکیرے ڈبوں پر لگاےُ اور ادویات کو لفافے میں پیک کیا۔
میں نے نسخہ لیا اور سرسری نظر سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ ایک دوا پہلے تین دن آدھی گولی دن میں دو دفعہ اور پھر تین دن کے بعد ایک پوری گولی دن میں دو دفعہ لکھا تھا۔ میں نے اس بندے کو میڈیکل سٹور سے باہر بلا کر کہا مریض سے کہنا کہ یہ دوا اس طرح کھانی ہے اور اتنے عرصہ کے لئے کھانی ہے۔ کوشش کریں کہ ایک دن کا بھی ناعہ نہ ہو۔ اس اس قسم کی کیفیت ہو سکتی ہے لیکن پھر بھی دوا جاری رکھیں۔
وہ کہنے لگا کہ تقریباً دو سال ہو گےُ کہ ہم اس مریض کو مختلف معالجوں کے پاس لے جاتے ہیں لیکن دس پندرہ دنوں کے بعد دوا چھوڑ جاتا ہے کہ دوا کا اثر نہیں یا اس دوا سے سر چکرا جاتا ہے۔ میں نے کہا کہ دوا سے زیادہ اہم یہ بات ہے کہ آپ کو پتہ ہو کہ یہ ادویات پندرہ بیس دن کے بعد اثر شروع کرتے ہیں اور ایک خاص عرصہ تک جاری رکھنے ہوتے ہیں۔
قارئین کرام یہ ایک کیس نہیں بلکہ ایسے کیسز سینکڑوں کی تعداد میں روزانہ کی بنیاد پر رونما ہوتے ہیں۔
آخر ایسا ہوتا کیوں؟؟؟
میرے شہر میں تقریباً دو ہزار سے زیادہ میڈیکل سٹور ہونگے لیکن مجال ہے کہ کسی ایک میڈیکل سٹور پر آپ کو ماہر ادویات ملے۔ تقریباً مڈل فیل لوگ اس کاروبار سے منسلک ہیں۔
ملک میں فارماسسٹ کی کوئی کمی نہیں ہے تاہم اس ملک میں قانون کے نفاذ کی کمی یقیناً ہے۔ میڈیکل اسٹورز اور فارماسسٹ کے بارے میں میڈیکل اسٹور کے لئے کوالیفایُڈ شخص کی حیثیت ڈرگ ایکٹ 1976 میں واضح قواعد کے ساتھ موجود ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں پھلوں کی دکان، گروسری شاپ اور میڈیکل اسٹور میں کوئی فرق نہیں ہے۔ میڈیکل سٹور پر فارماسسٹ کے موجود ہونے یا نہ ہونے کے فوائد اور نقصانات مختصراً بیان کرتا ہوں۔
فارماسسٹ کی غیر موجودگی سے دوائیوں کی غلطیوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جس کی وجہ سے مریضوں کو غلط دوائیں، خوراکیں، یا ہدایات مل سکتی ہیں، جو منفی رد عمل یا علاج کی ناکامی کا باعث بن سکتی ہیں۔
اس طرح ماہر مشورے کی کمی سے دوائیوں کے استعمال، ممکنہ ضمنی اثرات اور تعامل کے بارے میں قیمتی رہنمائی فراہم نہیں کی جا سکتی۔ فارماسسٹ کے بغیر، مریضوں کو وہ معلومات موصول نہیں ہوسکتی ہیں جن کی انہیں دوائیوں کو محفوظ اور مؤثر طریقے سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔
مریض مشورے کےلیے غیر تربیت یافتہ عملے پر انحصار کرسکتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ غلط استعمال یا دوائیوں کے زیادہ استعمال کا باعث بن سکتے ہیں۔
فیکلٹی آف فارمیسی، گومل یونیورسٹی بہترین کوشش کر رہی ہے کہ اس سلسلے میں ادویات کے استعمال، خوراک، ضمنی اثرات وغیرہ کے بارے میں مستند معلومات فراہم کرکے مریضوں کو کچھ ریلیف دے۔
گومل یونیورسٹی میں ڈرگ اینڈ پوُیزن انفارمیشن سنٹر (ڈی پی آئی سی) قائم کیا گیا ہے جہاں اہل فارماسسٹ کی ایک ٹیم صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک دستیاب ہے اور فون کال کے ذریعے معلومات فراہم کرتے ہیں۔
اس سلسلے میں مندرجہ ذیل نمبر پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
0966920858