حضرت اعلیٰ سیدنا و مولانا پیر مہر علی شاہ گیلانی رزاقی قادری چشتی صابری حنفی قدس سرہء کی ولادت گولڑہ شریف کے ایک ذی شان گیلانی خاندان میں ہوئی۔گولڑا شریف کا قصبہ کوہ مارگلہ کے دامن اسلام آباد کے سیکٹر ای ایلیون میں واقع ہے۔ آپکا نسب بیس واسطوں سے پیران پیر سیدنا غوث الاعظم دستگیر میراں محی الدین ابومحمد عبدالقادر جیلانی گیلانیؓ اور بیس واسطوں سے حضرت امام حسن مجتبیٰؓ سے جا ملتا ہے۔ آپؓ نجیب الطرفین سید تھے۔ آپکے جد امجد بارہ صدی ہجری کے آخر میں ساڈہورہ ضلع انبالہ(ہندوستان) سے آئے اگرچہ یہ خاندان تین پشتوں سے یہاں آباد یہ خاندان اپنی شرافت ونجابت اور تقویٰ کے سبب شہرت رکھتا تھا۔ لیکن آپ نے مجاہدات ومشاہدات علم و عرفان اور فضل الٰہی سے مذکورہ کمالات میں ایک نہایت ہی اعلیٰ و ارفع مقام حاصل کیا۔ آپکو اللہ تعالیٰ نے جن عطاؤں سے نوازا تھا۔ اسکی ایک ادنیٰ سی جھلک کہ قرآن مجید کا سبق روزانہ سنایا کرتے۔ وہ جب قرآن پاک ختم حاصل کی اس کمسنی میں آپکو موضع بہوئی(حسن ابدال) تک بھیج دیا گیا۔وہاں مولانا شفیع قریشی کے درس میں اڑھائی سال میں رسائل منطق قطبی تک اورنحو اصول کے درمیانے اسباق حاصل کئے۔ وہاں سے انگہ سون سلطان محمود کے پاس اڑھائی سال رہے۔ پھر دس سال کی عمر میں مزید مزید تعلیم کی خاطر مولانا احمد حسن کانپوری کے پاس کانپور ہندہستان چلے گئے۔ وہ حج پر جارہے تھے۔ انسے کچھ اسباق پڑھ کر علی گڑھ مولانا موصوف کے استاد مولانا لطف اللہ کے پاس اڑھائی سال تعلیم حاصل کی۔اور سہارن پور میں فن حدیث کے امام مولانا احمد علی سہارنپوری سے کتب الحدیث کی سند حاصل کی تو انہوں نے کہا کہ آپکو مزید پڑھنے کی ضرورت نہیں وطن تشریف لے جائیں اور دین کی خدمت کیجئے۔ آپ ہر دور کے اندر اپنے اساتذہ کے محبود شاگرد رہے۔خداداد ذہانت اور استعداد کے باعث بارہ سو نوے ہجری میں صرف بیس سال کی عمر میں ہندوستان سے تمام علوم رسمیہ کی تکمیل کرکے سیدجلال الدین بخاری(اوچ شریف) کی اولاد میں سے تھیں اسی عرصے میں ٓاپ سیال شریف حاضر ہوکر سلسلہ عالیہ چشتیہ میں شیخ طریقت حضرت شمس الدین سیالویؒ کے دست حق پہ بیعت ہوئے سلسلہ عالیہ قادریہ جدیہ میں اپنے ہی والد بزرگوار کے ماموں حضرت پیر سید فضل دین شاہ گیلانی سے بیعت اور مجاز تھے۔ حضرت خواجہ سیالوی قدس سرہ نے اپنے وصال سے کچھ عرصہ قبل آپ کو تمام اشغال و وظائف کی اجازت عامہ اور بیعت وارشاد کا منصب عطا فرما دیا تھا۔ اسکے علاوہ وہ سفر حج میں بھی امداد اللہ مہاجر مکی نے آپکو سلسلہ چشتیہ صابریہ عطا فرما دیا تھا۔ اسکے علاوہ آپ سلسلہ راعیہ میں بھی مجاز تھے ریاضت و مجاہدہ کا سلسلہ اولیا لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں تک رہا پھر ہندوستان کی طرف رخ فرمایا اور خواجہ غریب نواز اجمیری کے آستانے پہ حاضر ہوئے کسی غیبی اشارے کے تحت واپس آئے اور بعد از تکمیل علم و تربیت فقر 1889 بمطابق 1307ھ میں بیت اللہ اور دربار سولمقبول ؑ میں حاضر ہوئے۔ اٹھارہ اگست1933ء کو علامہ اقبال نے آپ کی خدمت میں عریضہ ارسال کیا جس میں زمان ومکان پر حضرت شیخ اکبر ابن عربی کی تعلیمات اور انکی کتب کے حوالہ جات سے متعلق استفسار کیا اور لکھا کہ اس وقت ہندوستان بھر میں کوئی دروازہ نہیں جسے پیش نظر مقصد کیلئے کھٹکھٹایا جائے حضرت اعلیٰ نے تمام فرقہ بالطلہ کے خلاف قلمی ولسانی جہاد کیا آپ نے 1900میں مرزا غلام احمدقادیانی کو شکست دی۔ وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے درمیان یہ کہ کر ربط اور تعلق پیدا فرمایا کہ وحدت الشہود ابتدائے سلوک اور نفس ایمان ہے۔ اور وحدت الوجود انتہائے مقام اور کمال ایمان ہے یہ اخص الخواص کا مشاہدہ اور حال ہے قال نہیں اس مقام کیلئے جمہور امت محمد یہ پابند نہیں۔ وادی احمر میں آپکو خواب میں آقا علیہ الصلوات والسلام کی زیارت کا شرف بھی حاصل ہوا۔وصال سے چند سال قبل آپ نے استغراق اور محویت تامہ سے منازل عشق وعرفان طے فرمائیں۔ گیارہ مئی 1937ء بمطابق انتیس صفر المظفر 1306ھ بروز منگل مجسمہ نورانیت نے داعی وصال کا روحی لبیک سے خیر مقدم فرمایا اور اسطرح اسم ذات شریف ’’اللہ‘‘ کا اعادہ فرما کر روبقبلہ ہوگئے۔دوسرے دن بعد از عصر چھ بجے شام قاری محمد مرحوم خطیب آستانہ عالیہ امامت میں لاکھوں افراد نے نماز جنازہ میں شرکت کی آپ کا سالانہ عرس انتیس صفر کو شروع ہوتاہے۔گولڑا شریف میں آپ کا مزار انوار مرجع خلائق ہے{jcomments on}
665