راولپنڈی کے تھانہ روات کے علاقہ موہڑہ گاڑمیں اغوا وقتل ہونے والے ننھے ارشمان کے اغواء کیس میں ملوث مرکزی ملزم”عاطف“ بالآخر اپنے انجام کو پہنچ گیا پولیس کے مطابق ملزم پولیس کی حراست میں اس وقت مارا گیا جب کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ (CCD) کی ٹیم اسے نشاندہی کے لیے لے جا رہی تھی اور ملزم کے ساتھیوں نے CCD ٹیم پر اچانک فائرنگ کر دی۔ فائرنگ کے تبادلے میں زیرِ حراست ملزم زخمی ہوا اور موقع پر ہی دم توڑ گیا
یہ واقعہ صرف ایک پولیس مقابلہ نہیں بلکہ ایک ایسے اندازِ انصاف کا مظہر ہے جس میں ریاست نے ایک معصوم جان کے قاتل کو قانون کے شکنجے میں لانے کے لیے ہر حد تک جانے کا عزم دکھایا۔ نومبر 2024 ارشمان کے والدین کے لیے دنیاء میں قیامت کا دن ثابت ہوا جب ننھے ارشمان کو ایک شادی کی تقریب سے اغواء کیا اورتقریباً ڈیڈھ ماہ کے بعد بچے کی لاش ایک تالاب سے ملی پولیس کے زرائع اس بات کے دعویدار تھے کہ پولیس مقابلے میں مارا جانیوالا عاطف بچے کو ٹافیوں / چاکلیٹ کا لالچ دے کر اپنے ساتھ موٹر سائیکل پر بٹھا کربراستہ ایک نجی سوسائٹی ”ڈھوک اعوان“ پہنچاجہاں وہ کام کرتا تھا اغواء سے پہلے ارشمان کی طبیعت خراب تھی موٹر سائیکل کے سفرسے صحت مزید خراب ہوئی تو ملزم نے اسے مسلسل نیند اور کھانسی کی دوا (سیرپ) پلانا شروع کر دیا تاکہ وہ زیادہ شور نہ کرسکے
لیکن ننھے ارشمان کی طبیعت ٹھیک ہونے کے بجائے بگڑ گئی جب بچے کی حالت مزید بگڑی، تو ملزم اسے ایک نواحی علاقہ ”باغ سانگراں“ میں ایک عطائی کے پاس لے گیا، جہاں اس نے بتایا کہ لگتا ہے بچے کو ڈبل نمونیا ہوگیا ہے عطائی نے مشورہ دیا کہ بچے کو فوراً کسی بڑے اسپتال لے جایا جائے تاکہ اس کا علاج ممکن ہوسکے لیکن بقول پولیس زرائع ملزم نے گرفتاری کے خوف سے ایسا نہ کیا
اسی دوران بچے کی موت واقع ہوئی، تو ملزم کے ہاتھ پاوں پھول گے اور اس نے لاش کو کمبل میں لپیٹا اور موٹر سائیکل پر رکھا اور گاوں کے ایک قریبی تالاب میں پھینک آیا یہ منظر ایک عام مجرم کی ذہنیت سے کہیں بڑھ کر درندگی اور بے حسی کی علامت تھا۔ پولیس کی پریس ریلیز کے مطابق، ملزم نے ارشمان کے ساتھ زیادتی کے علاوہ دیگر بچوں کے ساتھ بھی ایسے ہی گھناؤنے جرائم کا اعتراف کیا۔
ارشمان قتل کیس راولپنڈی پولیس کے لیے ایک سنگین چیلنج بن چکا تھا روات پولیس جب اس کو حل کرنے میں مکمل ناکام ہوئی تو کیس کو نوآموز ادارے CCD کو منتقل کردیا گیا تو CCDٹیم نے علاقے کی ازسر نو چھان بین کی اور 40 سے زائد مشکوک افراد سے تفتیش کی گئی
آخرکار، جدید تکنیک سے ملزم کو گرفتار کر لیا گیا پولیس زرائع اس بات کے بھی دعویدار ہیں کہ دورانِ تفتیش ملزم نے اپنے جرم کا اعتراف کیا پھر پولیس ملزم کی نشاندہی کے لیے لے جانے کے دوران ساتھی ملزمان کی فائرنگ سے مقابلہ شروع ہوا، جس میں عاطف زخمی ہوا اور بالا آخر ہلاک ہو گیا راولپنڈی پولیس کے مطابق، ملزم کے ساتھی فرار ہو گئے ہیں جن کی گرفتاری کے لیے سرچ آپریشن جاری ہے لیکن دوسری طرف ہلاک ملزم کے لواحقین اسے سراسر قتل قراردے رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ عاطف کا اس معاملے سے کوئی لینا دینا ہی نہ تھا پولیس نے عوام اور میڈیا کا پریشر ریلیز کرنے کے لیے یہ اقدام اٹھایا اور ایک بے گناہ کو مار دیا گیا لواحقین یہ بات بھی کرتے ہیں کہ اگر ملزم واقع ہی
ملوث تھا تو اس کا ٹرائل کیا جاتا تاکہ دنیاء دیکھتی کہ اس کا کیا انجام ہوا لیکن جوہونا تھا سو ہو چکا یہاں ان چند دوستوں کا بھی شکریہ جنہوں نے ارشمان کے لیے لگاتار آواز بلند کی اور کرتے رہے ان میں سینئر رپورٹر ایکسپریس صالح مغل انویسٹیگیٹو جرنلسٹ نوید ملک اور سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ ثاقب متیال شامل ہوگے ہیں ارشمان جیسی معصوم جانوں کے قاتلوں کا انجام صرف قانون کی فتح نہیں بلکہ ایک اجتماعی ضمیر کی بیداری ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے مقدمات میں انصاف صرف جلد ہو بلکہ مثالی بھی ہو، تاکہ کوئی اور معصوم ارشمان کسی درندے کا شکار نہ بنے لیکن آخری حل اور امید عدالتیں ہیں اور ہمیں اپناعدالتی نظام ایسا بنانا ہوگا کہ پھر کسی پولیس مقابلے کا سوال ہی ختم ہوجائے۔