مقامی آبادی تقریباًپچیس ہزار کے قریب ہے، یہ قصبہ زرخیز زمینوں عالی شان خوب صورت عمارتوں ،کئی منزلہ شاپنگ پلازوں ، تاریخی عمارات
مقامی آبادی تقریباًپچیس ہزار کے قریب ہے، یہ قصبہ زرخیز زمینوں عالی شان خوب صورت عمارتوں ،کئی منزلہ شاپنگ پلازوں ، تاریخی عمارات کی وجہ سے مشہورہے۔کلر سیداں ایک قدیم تاریخی قصبہ ہے، اس تاریخی قصبہ میں اس علاقے کی تاریخ کے کئی باب دفن ہیں ۔ یہ قصبہ روالپنڈی سے تقریباً40کلومیڑ کے فاصلہ پر واقع ہے، جب کہ قلعہ روات سے آٹھ کلومیڑ کے فاصلہ پر واقع ہے۔ اس قدیمی تاریخی قصبہ کو سادات خاندان کے سید محمد علی شاہ قوم سید گوت بھاکری نے360ھ میں آباد یوں کو تاخت وتاراج کیا لیکن یہ قصبہ ہمیشہ آباد رہا 1860ء میں انگریز کے عہدے حکومت میں یہ قصبہ جنگل بھورہ کلر پڑا تھا۔
اس کے باعث سے نام فدا کلر سے سید اں مشہور ہوگیا ۔آج کل یہ قصبہ کافی ترقی کر رہا ہے۔ قصبہ کی آبادی تقریباً 25ہزار کے قریب واقع ہے۔ یہ قصبہ زرخیز زمینوں ،عالی شان خوبصورت عمارتوں ،کئی منزلہ شاپنگ پلازں ، تاریخی عمارات کی وجہ سے مشہور ہے ۔ حبیب بنک ، مسلم کمرشل نینک ، شفاخانہ حیوانات ، ٹیلی فون ایکسچنیج واپڈا کا دفتر، خالصہ ہائی سکول (قائم شد 1896ئ) اس قصبہ کی مشہور عمارات ہیں ۔ یہ قصبہ تین تحصیلوں کہوٹہ گجر خان ، روالپنڈی کے سنگم پر واقع ہے۔
تمام گردونواح کے گاؤں قصبات اور شہر بلکہ آزاد کشمیر کی شاہراہ سڑکوں اور پگڑنڈیوں سے ملا ہوا ہے۔ حال آں کہ اس کو ملانے والی بیشتر سڑکیں کچی اور دشوار گزار ہیں ۔ اس کے گردونواح میں تاریخی مقامات ہیں۔ جو مرمت اور دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ رہے ہیں۔ آثار قدیمہ کے محکمہ کو ان پر نظر کرم کرنی چاہیے۔ قلعہ روات، قلعہ قلعی دان ، قلعہ سنگی ، سر صوبہ ، شاہ رانی سنگھ تفریح گاہیں اور تل خالصہ ہول بھاٹہ ملپہاڑی جو گجر خان سے دور واقع ہیں اور کلر سیداں سے ملحق ہیں ، انھیں تھانہ کلر سیداں میں شامل کردیا جائے۔
قصبہ کی قدیم مشہور عمارات میں سکھوں کا تعمیر کردہ تاریخی بیدی محل کی عمارت موجود ہے۔ یہ بیدی محل تین ایکڑ رقبہ ہوا ہے جسے سکھ دھرم کے مذہبی پیشوا بابا کھیم سنگھ بیدی نے1836ء کو تعمیر کروایا تھا۔ مذہبی محل کی تعمیر میں استعمال ہونے والا پتھر ضلع اٹک اور تھوہاروڑ پر واقع ‘بھائی کی بن’ سے حاصل کیا گیا تھا۔ محل کی تعمیر میں علاقہ کے ماہر فن تعمیرات نے حصہ لیا ۔ دیواروں کی چوڑائی ایک گز سے بھی زیادہ ہے۔ اس کی تعمیر میں چونا اور پٹ سن کے ریشے استعمال کیے گئے تھے، محل کی چار منازل 45کمرے اور دو بیسمنٹ ہیں ۔
اوپر کی منزل تک رسائی کیلئے اس اس کی اطراف میں سڑھیاں موجود ہیں ۔ پہلی منزل میں بنی گیلری اب بھی سکھوں کی مشہور سخصیات کی رنگین تصاویر سے مزین ہے۔ جب پاکستان بنا تو کلر سیداں قصبہ میںہندوؤں اور سکھوں کی آبادی زیادہ تھی لیکن گردنواح میں مسلمان کی آبادی وافر تھی جب ان مسلمان نے قصبہ پر حملہ کیا تو یہی بیوی محل ہندوؤں اور سکھوں کی حفاظت کے کام آیا اور انھوں نے وہاں جمع ہو کر دروازے بند کر دے ۔ کلر سیداں کا یہ بیدی خاندان راجوں ، مہاراجوں ، کا ہم پلہ تصور ہوتا تھا۔ چناں چہ ان کے ہاں مال ودولت کی کوئی کمی نہیں تھی۔
بابا کھیم سنگھ کا تعلق نہ تو مہاراجا رنجیت سنگھ کے دربار سے تھا اور نہ اس کی سرکار سے سکھوں کی ایک بر جستہ روحانی شخصیت ہونے کے ناتے گوردواروں پر چڑھایا جانے والا نذرانہ بالاآکر ان ہی کو پیش ہوتا تھا ۔ انگریز سرکار نے ‘گوردوراہ پر بند ھک کمیٹی’ کے نام سے ایک ایسی کمیٹی تشکیل دی جس نے گوردواروں پر چڑھنے والی نذر نیاز کو اپنے کنڑول میں لے لیا اس کمیٹی کے پہلے صدر کلر سیداں خالصہ ہائی سکول کے ایک استاد ماسڑ تاراسنگھ تھے۔
ماسڑ تاراسنگھ علاقہ پوٹھوہار کے ایک گاؤں اکال گڑھ کے رہنے والے تھے۔ بعد ازاں گوردوارہ پر بندھک کمیٹی کے اراکین نے ‘اکلالی دل ‘کے نام سے سکھوں کی ایک سیاسی جماعت بنائی تھی ۔ اگر اکالی دل نے 1947ء میں کانگریس کے بجائے مسلم لیگ کا ساتھ دیا ہوتا تو بعدازاں خونیں فسادات ہوتے نہ پنجاب دو حصوں میں منقسم ہوتا اور نہ کشمیر کا تنازع اٹھ پاتا ۔
بابا کھیم سنگھ کے پوتے بابا سر یندر سنگھ کی شادی مہاراجا کشمیر کی بیٹی سے ہوئی تھی ، 1914ء میں پہلی جنگ عظیم کے نقارے پر چوٹ پڑی تو انگریز کو جنگی الاؤدہکانے کیلئے مزید ہندوستانی سپاہ کی ضرورت پیش آئی ، چناں چہ پنجاب کا انگریز گورنر و ائس رائے ہند کے حکم پر بابا سر یندر سنگھ سے ملنے کیلئے کلر سید اں آیا ، روات اور کلر سیداں کے مابین کچی سڑک پہلی بار اسی کی سواری کیلئے بنائی گئی ۔
مشہور بھارتی صحافی دیوان سنگھ مفتون نے اپنی کتاب میں اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے، جب گورنر پنجاب نے بابا سریندر سنگھ سے پو چھا آپ کتنے سنگھ جوان ہمیں دے سکتے ہیں تو بابا سر یندر سنگھ نے انگریز سرکار کو دولاسنگھ جوان مع اسلحہ جنگ لڑنے کے لیے دیے تھے۔ جنگ کے موقع پر انگریز گورنر نے بابا سریندر سنگھ کو ان کے آبائی بیدی محل ہی میں نظر بند کر دیا تھا۔
جنگ ختم ہونے کے بعد انگریز سرکار نے بیدی خاندان کو تین سو مربع اراضی ساہیوال اور سات سو مربع اراضی گوڑ گاؤں (پانی پت)میں الاٹ کی لیکن گوردواروں کے چڑھاوے سے اس خاندان کو محروم کردیا تھا۔ بیدی محل میں عرصہ دراز تک تعلیم وتدریس کا عمل جاری رہا ، اب کلا سز نئی عمارت میں شفٹ ہونے کے باعث ‘بیدی محل ‘ کے مرکزی گیٹ پر تالا لگا رہتا ہے۔{jcomments on}