205

ظالم ہو تم سب۔۔۔مرنے کی اجازت بھی نہیں دیتے ہو

محمدجاویدچشتی

وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان راجہ پرویز اشرف کے حلقہ انتخاب میں واقع گاؤں مرزاکمبیلی کی جانب شرق برساتی نالے کے کنارے ،تنہا درخت کے ساتھ والا مکان اسی کا ہے ۔درخت پر ایک جانب ایک پرانا پھٹا ساسوراخ ہے جس پر کسی نے اپلے تھاپے تھے، پرشاید اتارنابھول گیا۔درخت کی تنہائی اور محمدضمیر کی تنہائی میں فقط اس قدر مماثلت ہے کہ ایک مکان کے اندر

تنہا اور دوسرا مکان کے باہر تنہا۔ایک کو رزق زمین کی پنہائیوں سے مل رہاہے تو دوسرے کو قدرت کی رعنائیوں سے۔گھر کے قریب کا برساتی نالہ موسم بہار میں پانی سے بھرتاہے لیکن محمدضمیر کی آنکھیں ہروقت برسات کا منظر پیش کرتی رہتی ہیں۔اس کا نہ کوئی بھائی ہے نہ بہن،ماں نے پہلے اسے چھوڑا تھا اب وہ یہ دنیا ہی چھوڑ چکی ہے۔
محمدضمیرکی عمر صرف تین سال تھی تو اس کی والدہ کو طلاق ہوگئی اور وہ اپنے ضمیرپر پتھر رکھ کر محمدضمیر کو چھوڑ کرچلی گئی۔ والد کی زمین پر محمدضمیر نے کچھ اپنی محنت اور کچھ لوگوں کی امدادسے مکان تعمیر کرایا۔اس کھنڈر نما مکان میں محمدضمیر اس طرح بیٹھا تھا جس طرح پرانا کباڑ کا مال ہو۔ایک کونے میں پڑا بجلی کا بند پنکھا اس ماحول کو مذید حبس زدہ بنارہاتھا۔مکان کے کونے کھدروں میں پڑے گندے برتن ماحول کو متعفن زدہ بنارہے تھے۔پرانی چارپائی پر میل سے اٹا ہوا بستراور محمدضمیر کے لباس میں کس قدر یکسانیت تھی۔
صرف 35سال کی عمرمیں ہی اس کے چہرے پر جھریاں نمایاں ہیں اور ہر جھری ایک داستان بیان کرتی نظر آتی ہے ۔سرسے پیر تک اجاڑ ،چہرے کی زردی،آنکھوں کی ویرانی،ناخنوں میں گندگی ٹھسی ہوئی،ہونٹوں پر موٹی موٹی پیپڑیاں جمی ہوئی،اس کے ماتھے کے نیچے دوگڑھوں میں اس کی آنکھوں کے بے نور ڈھیلے متحرک ،بالوں کا روکھا پن اور ان سب سے بڑھ کر تنہائی باالکل اپنے پچھواڑے کے درخت کی طرح۔پولیو کی وجہ سے ٹانگیں تڑی مڑی ہوئی ہیں اورموتیے کی وجہ سے نظر کمزور ہوتے ہوتے اب آخری منزل پر پہنچ چکی ہے ۔
میں جب اس کے کمرے میں داخل ہوا تو اس کے ماتھے کے اوپر تین چار مکھیاں بیٹھی اپنے پروں کو سنوارنے میں مشغول تھیں اوروہ انھیں بار بار اڑا رہاتھا لیکن وہ دوبارہ اپنے مرکز کی جانب لوٹ آتی تھیں۔وہ اٹھ کھڑا ہوااپنی لانبی سے سوٹی لے کر۔
“کیا لینا ہے “اس نے نحیف سی آواز میں پوچھا
میں نے کھانستے ہوئے جواب دیا”انٹرویو”
“میرے پاس شیمپوکی پڑیاں،سرف کے پیکٹ اور بچوں کے کھانے کی ا شیاء توموجودہیں لیکن جوچیز آپ مانگ رہے ہیں وہ نہیں ہے”اس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
محمدضمیر نے اس کباڑ خانے میں اپنے ہمراہ فروخت کرنے کے لئے یہ چند چیزیں بھی لٹکائی ہوئی تھیں۔وہ انٹرویوکو بھی کریانہ کا کوئی ایٹم سمجھ رہاتھا۔
میں نے پوچھا آپ کی تنہائی اور آنکھوں کی عدم بینائی میں کیا کہانی پوشیدہ ہے ؟
میرے سوال پر وہ اس طرح کچی زمین پر بیٹھ گیا جیسے کوئی بھاری بوجھ اچانک پھینک دیاگیاہواور گویاہوا۔
“میرے والد کانام منیر ہے شاید محمدمنیر۔والدہ کا نام کنزیٰ منیر تھا اور شاید بعد میں کنزیٰ نثار ۔وٹے سٹے کی شادی کی وجہ سے اختلافات کی شدت اس قدر بڑھی کہ میرے والد نے میری ماں کو طلاق دے دی ۔میری عمر اس وقت صرف تین سال تھی۔والدہ نے دوسری شادی کرلی اور میں نانی کے پاس چلا گیا،نانی مری تو پھر والد کے پاس آگیا۔والدنے بھی دوسری شادی کرلی ۔اب میری ماں مر چکی ہے ،نہ مرتی تو اس کے پاس چلا جاتا۔وہ یقینی طورپر میری اس حالت پر رحم کھاتے ہوئے مجھے اپنے دامن کی پناہ میں لے لیتی۔میرا اور کوئی بہن بھائی نہیں ہے ۔مانگنا اچھا نہیں لگتا تھا اس لئے شروع ہی سے پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے جب تک آنکھیں ساتھ دیتی رہیں چھوٹی موٹی اشیاء لے کر سکولوں کے دروازے پر چلا جاتاتھا اور سو،پچاس کی دیہاڑی لگا لیا کرتاتھا۔والد کی مالی حالت بھی پتلی ہے ۔یہ جس مکان میں آپ موجود ہیں یہ میں نے خود تعمیر کرایا ۔جگہ والد کی ملکیت ہے۔
وقت گزر رہاتھا کہ اچانک نظر کمزور ہونا شروع ہوگئی اور اب تو موتیے نے حد ہی کردی۔ختم ہوگئی ہے بینائی ۔اچھا ہوا ۔اب کسی منظر کو دیکھنے کی کوئی تمنا نہیں۔موت کا منتظر ہوں لیکن کم بخت آتی ہی نہیں۔ایک بار پنساری کی دکان سے زہر لینے گیا تو رقم کی کمی کی وجہ سے نہ لے سکا۔
میں نے بڑے پارساؤں کے لہجے میں کہا “خودکشی حرام ہے،اسلام نے منع کیاہے “
وہ پھٹ پڑا،اس کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسوں اس کے رخساروں کی جھریوں سے ہوتے ہوئے ٹھوڑی پر آکر تھوڑی دیر کے لئے رکے اور پھر دھڑام سے نیچے زمین پر گر کر کچی مٹی میں پیوست ہوگئے ۔جھریوں سے نکلنے والا میل چہرے پر بعض جگہ نشان چھوڑ رہاتھا۔
اس کی آواز میں درد تھالیکن تسلسل نہیں تھا۔”ظالم ہوتم سب،مرنے کی اجازت بھی نہیں دیتے ہو۔کیا رکھاہے اس دنیامیں ۔۔۔۔سنا ہے پرویز اشرف وزیراعظم بن گیاہے ۔اس کا بیٹا ایک دن میرے ساتھ اس مکان میں رہ سکتاہے ؟ماں سب سے محبت کرنے والا رشتہ ساتھ چھوڑگیا۔۔۔۔آنکھیں سفید ہوگئیں۔باپ بیچارا اپنے خاندان کا پیٹ پالے یا میری لاش کو سنبھالے۔۔۔۔۔جس گھر سے سالن روٹی لیتاہوں بیس پچیس روپے دیناپڑتے ہیں وگرنہ دوسرے دن کوئی صحن میں گھسنے ہی نہیں دیتا۔۔۔۔میرا رکھا ہوا سامان کوئی خریدتا ہی نہیں اور اگر خریدے بھی تو آمدن نہ ہونے کے برابر۔۔۔عرصہ دراز ہوا صابن نہ ہونے کی وجہ سے نہا نہیں سکا۔۔۔۔بدبوآتی ہے مجھ سے ۔۔گھن آتی ہے لوگوں کو مجھ سے اور مجھے خود بھی اپنے آپ سے گھن آتی ہے ۔۔بدبوہی بدبوہے میرے کمرے میں ۔۔۔جس دن مروں گا ،غسل دینے کے لئے شاید ہی کوئی تیار ہو۔۔۔۔رونا چاہوں تو سہارے کے لئے کوئی کندھا نہیں۔۔۔بیمار ہوجاؤں تو کوئی پوچھنے ہی نہیں آتا۔چلنا چاہوں تو پولیوزدہ ٹانگیں انکاری ہوجاتی ہیں۔۔۔۔۔سنا ہے زمردخان سویٹ ہوم میں بے سہارا بچوں کو رکھتاہے لیکن میں بچہ تو نہیں ہوں ناں۔قبر ایسی تنہائی ہے ۔۔۔۔فرزانہ راجا بیوہ عورتوں کو امداددیتی ہے میں بیوہ تو نہیں ہوں۔۔۔۔۔خدا کیلئے مجھے تھوڑا سا زہر لادو۔بہت ساری دعائیں دوں گا۔اب زہر کے لئے وزیراعظم سے اپیل تو اچھی نہیں لگتی ناں۔۔”وہ بلک بلک کر رونے لگا ۔
میرے آنسو رواں تھے اور میرے ہاتھ میں پکڑا ہوا کاغذ ان آنسوؤں سے تر ہوچکاتھا۔میں اٹھا تو وہ بھی اپنی لانبی سوٹی لے کرکھڑا ہوگیا اور میرا راستہ روک لیا۔میں نے اس کے پاؤں پر نظر ڈالی تو میل سے اٹے ہوئے بھدے پاؤں پھٹی ہوئی بے ہودہ سی چپلی سے ایسے منہ باہر نکالے ہوئے تھے جیسے اس کے گھر کے باہر ایستادہ درخت کے سوراخ پر تھپے ہوئے اُپلے۔اس کا سارے کا ساراجسم خمیدہ تھا جیسے وہ ایک ایسی عمارت ہے جوپل بھر میں دھڑام سے گرجائے گی۔
“وعدہ کرکے جاؤکہ زہر لا دوگے”میں پہلو بچا کر خاموش باہر نکل آیا۔تنہا درخت اور برساتی نالہ دونوں مذید اداس اور تنہا دکھائی دے رہے تھے اور میرے کانوں میں بار بار یہ آواز گونج رہی تھی “ظالم ہو تم سب۔۔۔مرنے کی اجازت بھی نہیں دیتے ہو”


خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں