تحریر:عاطف چوہدری
تعارف:طارق محمود بٹ کی پیدائش 8 نومبر1957کو ساگری میں ہوئی تاہم ان کے والد صاحب کی آرمی میں ملازمت کی وجہ سے ان کے بچپن سے لے کر جوانی تک کا عرصہ کوہاٹ، جہلم اور ملتان میں گزرا۔ کالج کے بعد تعلیم کا سلسلہ منقطع کردیا کیونکہ نصاب
میں دلچسپی نہیں تھی تاہم کتاب سے شروع سے لگاو رہا ہے جو ابھی تک چل رہا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ مختلف شہروں میں زندگی گزارنا اور مختلف زبانیں سیکھنا،فن ادکاری میں معاون ثابت ہوا۔طارق محمود کو طارق بٹ بنانے میں زبانوں نے بہت اہم کردار ادا کیا۔طارق بٹ نے بطور آرٹسٹ10 مئی1975کو ریڈیو ملتان سے اپنے فنی کیرئیر کا آغاز کیا۔1979میں راولپنڈی شفٹ ہو گئی اور راولپنڈی/اسلام آباد ریڈیو سے منسلک ہو گئے۔1981سے پاکستان ٹیلی ویڑن اسلام آباد سینٹر سے ادکاری کا آغاز کیا اور مختلف ڈراموں میں کام کیا جن میں پیا گھر آیا، نیلی دھار، اچے بوئے، زرد اجالا اور جنون قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ پوٹھوہاری زبان میں مختلف پروگرام لکھے اور بطور میزبان بھی کام کیا۔ ریڈیو پاکستان میں بہت عرصہ کام کیا۔ عشرت فاطمہ، خالد حمید، فاروق اقدس، شاہین اشتیاق، انجم حبیبی، سجاد کشور، نرگس رشید، غزالہ بٹ اور ہاشم بٹ اور اس وقت کے دیگر ساتھی فنکاروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔
پنڈی پوسٹ: آپ کے وقت کے ٹیلی ویڑن اور آج کے ٹیلی ویڑن میں کیا فرق ہے؟
طارق بٹ :ہمارے وقت کے ٹیلی ویڑن اور آج کے ٹٰی وی میں زمیں آسمان کا فرق ہے۔ ایجوکیشن، انفارمیشن اور انٹرٹینمنٹ کبھی پی ٹی وی کا منشور ہوا کرتا تھا۔ قوموں کی تاریخ میں میڈیا کا کردار بہت اہم رہا ہے تاہم ہمارا میڈیا اس حوالے سے بہت پیچھے ہے۔ پی ٹی وی نے کسی دور میں یہ کردار ادا کیا۔ تا ہم عہد حاضر میں کمرشلزم کی وجہ سے انٹرٹینمنٹ میڈیا سے لے کر صحافت تک وہ معیار نظر نہیں آ رہا جو اس شعبے میں کام کرنے والوں لوگوں کا خاصا ہوا کرتا تھا۔ چینلز کی بھر مار کی وجہ سے آرٹسٹ خوشحال ضرور ہو گیا ہے ہمارے وقت لوگ اپنی لگن کی وجہ سے کام کرتے تھے پیسہ ان کی ترجیح نہیں تھا اور نہ ہی اتنے زیادہ پیسے ملتے تھے اس لیے جو لوگ کام کرتے تھے ان میں ایک جذبہ نظر آتا تھا۔ ماضی میں پروڈیوسرز بہت پڑھے لکھے اور محنتی ہوتے تھے وہ گلی کوچوں میں آرٹسٹس تلا ش کرتے اور ریہرسلز کراتے تھے لیکن آج بدقسمتی سے اینکرز نے پروڈیوسرز رکھے ہوئے ہیں۔ پروڈیوسر کا وہ مقام نہیں رہا صرف اسکرین پر نظر آنے والا اینکر ہی ہر چیز کا کریڈٹ لیتا ہے
پنڈی پوسٹ: اسلام آبا دسینٹر نے نامور ادکار اور ڈرامے تخلیق کیے، آج کل کام کیوں نہیں ہورہا؟
طارق بٹ:اسلام آباد سینٹر نے اپنے مقامی آرٹسٹ کو بہت کم کام دیا ہے اس کے برعکس پشاور نے اپنے مقامی فنکاروں کو چانس دیا اور بہت بڑے فنکار پیدا کیے۔ یہاں سے بھی بہت بڑے نام پیدا ہوئے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہاں انڈسٹری نہیں ہے اور فنکاروں کو لاہور اور کراچی جانا پڑتا ہے۔
پنڈی پوسٹ: ریڈیو یا ٹی وی میں سے آپ کا انتخاب کیا ہو گا؟
طارق بٹ:ریڈیوتربیت کا مرکز ہے اس میں کام کرنا زیادہ اچھا لگتا ہے کیونکہ وہاں سے جو کچھ سیکھا تھا اسی کی وجہ سے ٹی وی پر کام کرنا ممکن ہوا۔آج بھی اگر مجھے دوبارہ انتخاب کا موقع ملا تو وہ ریڈیو ہی ہو گا۔ Presenter کی آواز بنانے کے لیے بہت محنت کرنا پڑی ہمیشہ سے آواز ایسی نہ تھی لیکن پریکٹس اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ آواز نیچرل ہو گئی ہے۔ وہی آرٹسٹ کامیاب ہوئے جن کی بنیاد ریڈیو تھی اور تمام بڑے فنکاروں کا آغاز ریڈیو ہی سے ہوا۔ بدقسمتی سے آج ریڈیو تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ ایف ایم چینلز پر ہر وقت موسیقی چلتی رہتی ہے
پنڈی پوسٹ: نوجوانوں کو اس فیلڈ میں آنا چاہیے؟
طارق بٹ:نوجوانوں کو اس فیلڈ میں ضرور آنا چاہیے مواقع بھی بہت ہیں تاہم چینلز کی بھر مار ہونے کی وجہ سے اپنی شناخت کرانا ایک چیلنج بن چکا ہے۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ اس ضمن میں نوجوانوں کی مدد کی جائے۔ مجھے فخر ہے کہ میں نے افضل خان (ریمبو) کو متعارف کرایا جس کا وہ آج تک معترف ہے۔ پرانے لوگوں کو نئے آنے والوں کی راہمنائی کرنی چاہیے اور حوصلہ افزائی بھی۔ خوش قسمتی سے مجھے بہت اچھے اساتذہ ملے۔جن میں ارشاد اعوان، ہمایوں بشیر، برکت اللہ، غضنفر علی بخاری، جمشید فرشوری، اختر امام رضوی کے نام قابل ذکر ہیں
پنڈی پوسٹ: میڈیا میں کام کرنے کے حوالے سے کوئی شوق جو پورا نہ ہوا ہو؟ نیز آپ نے کام چھوڑ کیوں دیا؟
طارق بٹ:االلہ کا کرم ہے کوئی تشنگی نہیں ہے میں میڈیا میں جو کچھ کرنا چاہتا تھا کیا۔ برطانیہ ٹی وی پر مجھے پہلی دفعہ پوٹھوہاری نشریات کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ وقت کے ساتھ ساتھ مجھے سوشل ویلفیئر کے کام کرنے کا موقع ملا۔ خاص طور پر 2005کے زلزلہ کے موقع پر جب میں برطانیہ تھا وہاں ٹی وی ٹرانسمیشن کے ذریعے 8.2 ملین پاونڈ زلزلہ متاثرین کے لیے اگھٹا کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ابھی بھی وسیلہ ٹرسٹ کے نام سے بہت سے فلاحی کاموں کا سلسلہ رواں دواں ہے جسکی خصوصی معاونت برطانیہ سے رفقائے کار کر رہے ہیں۔ میڈیا چھوڑںے کی ایک وجہ تو اسلام آباد سے ساگری آ جانا تھا پھر میں برطانیہ چلا گیا گو کہ وہاں بھی میرا زیادہ وقت ٹی وی ساتھ ہی گزرا تاہم سماجی فلاحی کاموں میں میری دلچسپی قدرے زیادہ ہو گئی ہے۔ آئندہ میڈیا کے حوالے سے ڈرامہ کرنے کا کوئی شوق نہیں ہے تاہم اگر اینکر شپ یا لکھاری کی حثیت سے کام ملا تو ضرور کروں گا۔
پنڈی پوسٹ: دیگر علاقائی زبانوں کی طرح پوٹھوہاری زبان میڈیا پر کم دیکھنے سننے کو ملتی ہے اسکی کیا وجوہات ہیں؟
طارق بٹ:بدقسمتی سے ہماری لیڈر شپ پوٹھوہاری زبان کو شناخت نہ دلا سکی۔ آپ پی ٹٰی وی نیشنل ہی پر دیکھ لیں کہ وہاں کشمیری، سرائیکی، ہندکو زبانوں میں پروگرام نشر ہو رہے ہیں لیکن پوٹھوہاری نہیں ہے بدنصیبی ہے کہ راجہ شاہد ظفر صاحب بی بی شہید کے بہت قریب رہے لیکن زبان کی شناخت نہیں کرا سکے۔ شیخ رشید فرزند راولپنڈی بہت دفعہ انفارمیشن منسٹر رہے لیکن اس طرف کوئی توجہ نہ دی۔ چوہدری نثار علی خان اتنے با اختیار وزیر ہونے کے باوجود پوٹھوہاری کو شناخت نہیں دلا سکے۔ پی ٹی وی پر جب بھی علاقائی زبانوں کی بات ہوتی ہے اس میں پوٹھوہاری کو نکال دیا جاتا ہے۔ آج بہت ضروری ہے کہ پوٹھوہاری زبان
میں ٹی وی نشریات یا چینلز شروع کیے جائے تا کہ اس زبان کی ترویج و ترقی ممکن ہو سکے۔
پنڈی پوسٹ: عہد حاضر میں علاقائی میڈیا کی کیا اہمیت ہے؟
طارق بٹ: علاقائی میڈیا وقت کی ضرورت ہے یہ علاقے کے عوام کے مسائل کی بہترانداز میں نشاندہی کرتا ہے جو کہ قومی میڈیا پر نظر انداز ہو جاتے ہیں۔ میں لوکل اخبارات بالخصوص پنڈی پوسٹ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ وہ محدود وسائل میں بھی عوام کی خدمت کررہے ہیں تاہم میڈیا قومی ہو یا علاقائی انہیں معاشرے کی خرابیوں کے ساتھ ساتھ مثبت پہلووں پر بھی روشنی ڈالنی چاہیے۔ کرپشن، بدنظمی، لوٹ مار کے باوجود کہیں تعمیروترقی، خدمت خلق اور ایسے بہت سے لوگ بے لوث کام کررہے ہیں کہ ان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔
پنڈی پوسٹ: سیاست سے کس حد تک لگاو ہے؟
طارق بٹ: سیاست سے مجھے کوئی لگاو نہیں ہے میرا شوق سوشل ورک ہے تاہم ایک طرح سے سیاست بھی سوشل ورک ہی ہے۔ گھر ہی سے بزرگ رشتہ دار عباس بٹ صاحب، دوست و ہمسایہ شیخ ساجد الرٰحمن، راجہ انور اور سرادار نسیم وغیرہ سب دوست ہیں ان سے راہ و رسم لیکن براہ راست سیاست کا کوئی شوق نہیں ہے۔
پنڈی پوسٹ: یونین کونسل ساگری کے تمام علاقوں مسائل و وسائل کا استعمال مساوی ہے؟
طارق بٹ: یونین کونسل ساگری کے بہت سے علاقے نظر انداز ہیں بالخصوص ڈھکالہ اور مانکیالہ کے ساتھ سخت نا انصافی برتی گئی ہے ان دنوں دیہاتوں میں سوئی گیس کی سہولت ہے نہ ہی پکی سڑک ہے۔ بالخصوص توپ مانکیالہ کے ساتھ بہت زیادتی ہوئی ہے اس گاوں کے پاس ایک عرصہ دراز تک یونین کونسل کا اقتدار رہا لیکن وہ سوئی گیس کی سہولت سے محروم ہیں جب کہ گردو نواح کے تمام دیہاتوں میں سوئی گیس میسر ہے۔ ڈھکالہ کی سڑک نہ بننا انسانیت کی تذلیل ہے۔ کلاس فور کی بھرتیوں کا معاملہ ہو یا پھر ترقیاتی کام ساگری کو ہمیشہ ترجیح دی گئی ہے جبکہ کے یونین کونسل کے دیگر دیہاتوں کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔
پنڈی پوسٹ: اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنے میں تاخیر کیوں؟
طارق بٹ: احکام بالا کی نیت ٹھیک نہیں ہے اور اختیارات نچلی سطح پر منتقل نہیں کیے جا رہے ہیں۔ یونین کونسل ساگری کے چیئرمین راجہ شہزاد یونس پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ترجیح بینادوں پر لوگوں کے مسائل حل کریں۔ ہر گاوں کے لوگ تین افراد پر مشتمل ایک کمیٹٰی تشکیل دیں اور وہ اپنے مسائل براہ راست راجہ شہزاد اور سیخ ساجد الرٰحمن تک پہنچائیں۔
پنڈی پوسٹ:پاکستان کے مستقبل کو کیسا دیکھتے ہیں؟
طارق بٹ:میرا یقین کامل ہے کہ پاکستان کے حالات میں بہت بہتری آئے گی۔ اللہ اور اسکے رسولؐ کے نام پر بننے والا یہ ملک ضرور ترقی کرئے گا۔ اس خطہ زمین کے بارے میں اللہ کے نبیؐ نے بشارتیں دی ہیں۔ بے شک اللہ قادر ہے کہ ہم جیسے برے لوگوں سے بھی وطن کی بہتری کے لیے بہت اچھے اور بڑے کام کروا لے۔{jcomments on}