145

روشنی کا مینار ۔۔۔ راجہ محمد اکرم/ فیصل بلال

یوں تو ہرصبح نکلتا ہے افق سے سورج
کارواں روز اترتے ہیںیہاں کرنوں کے
گنگناتی ہوئی ہر روز صبح آتی ہے
رنگ کچھ اور نکھرتے ہیں گلستانوں کے
یوں تو جاری ہے یہ صبحوں کا تسلسل لیکن
آج کے روز کا انداز جداگانہ ہے!!!
جی ہاں! آج کا دن مختلف ہے، بہت سوگوار دن ہے۔ آج خطہ پوٹھوار کے عظیم معلم اور دانشور راجہ محمد اکرم آف بھکڑال، کلر سیداں ہم میں نہیں رہے۔ خدا ان کو قریہ قریہ جنت نصیب کرے۔ آمین!مرحوم کا شاگرد ہونے کے ناطے میں بھی ان کے انتقال پر دکھی ہوں اور وطن عزیز اور بالخصوص خطہ پوٹھوار کے لئے ان کی گراں مایہ خدمات پر ان کو خراج عقیدت پیش کر رہا ہوں جو نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط ہے یعنی محاورے کے طور پر ہی نہیں بلکہ حقیقت میں بھی “یہ نصف صدی کا قصہ ہے ، دو چار برس کی بات نہیں”آپ کی سب سے بڑی خوبی “اصول پرستی” تھی۔ کبھی بھی کسی قریبی عزیز یا دوست کا کوئی خلاف ضابطہ کام نہیں کرتے تھے۔ میں اپنے زمانہ طالب علمی کے ایسے متعدد واقعات کا گواہ ہوں جب نہایت قریبی عزیز اور دوست کاموں کی درخواست لے کر آئے مگر خلاف ضابطہ ہونے کی وجہ سے سر اکرم نے وہ کام کرنے سے انکار کر دیا اور وہ بھی بغیر کسی لگی لپٹی کے 150ایسا کرتے ہوئے انہیں کبھی کسی کی نارضگی کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی تھی۔ آج میں اپنی سماجی اور پیشہ وارانہ زندگی کا جائزہ لیتا ہوں تو سر اکرم جیسا اصول پرست کوئی نظر نہیں آتا۔آپ نہایت اچھے معلم تو تھے ہی ، اس سے بھی اچھے ایڈمنسٹریٹر تھے۔ بطور پرنسپل سکول کی ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز پر ان کی نگاہ میں ہوتی تھی۔بابائے قوم کے یہ زریں اقوال “اتحاد، تنظیم، یقین” سر اکرم کی زیست کا لازمی جزو تھے۔ نظم و ضبط کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیتے تھے۔نظم و ضبط کا اطلاق محض طالب علموں پر ہی نہیں اساتذہ پر بھی کرتے تھے 150آپ وطن پرست تھے اور ہمیشہ وطن سے محبت کا درس دیتے تھے۔ اسلاف کی عظمت بیان کر کے نوجوانوں کو آزادی کی اہمیت بتاتے وطن کا پرچم سر بلند رکھنے کو کہتے۔آپ شاعری کا خاص ذوق رکھتے تھے۔اردو سے آپ کو خاص پیار تھا۔ اردو کی ساری تاریخ آپ کو ازبر تھی۔اردو “ریختہ”، “لشکری زبان” اور جن مراحل سے گزر کر آج کی شکل میں پہنچی،اس کو فصاحت سے بیان کرتے۔ ولی دکنی، میر تقی میر، غالب، فیض اور دیگر شعرا کے سیکڑوں شعر سر اکرم کو ازبر تھے، جن کو موقع کی مناسبت سے سناتے تھے۔ مسدس حالی ایک مخصوص انداز میں سنا کر دلوں میں ملی جذبہ جگاتے تھے۔اقبال سے خصوصی عشق رکھتے تھے اور اقبال کے اشعار سے دین اور وطن سے محبت کا درس دیتے تھے۔ان کی خصوصی مہارت مطالہ پاکستان تھی مگر کئی دیگر مضامین میں بھی عبور حاصل تھا۔ اردو میں باکمال تھے۔ ریاضی میں لا جواب تھے۔ جغرافیہ ان کی دسترس میں تھا۔ فارسی میں ملکہ رکھتے تھے۔ انگریزی کی مکمل سمجھ بوجھ رکھتے تھے۔اسلامیات بھی پڑھا سکتے تھے ، غرض کیا تھا جو ان کو نہیں آتا تھا۔ ہمہ جہت اور ہمہ پہلو تھے۔ صرف پوٹھوہار نہیں وطن کا اثاثہ تھے۔ ان کے ہزاروں شاگرد آج دنیا بھر میں پاکستان کا پرچم سر بلند کیے ہوئے ہیں جس کا انہوں نے خواب دیکھا تھا۔اس عظیم ورثے اور درخشاں روایت کو جاری رکھنے کی ذمہ داری اب محترم نیر جمال اکرم کے کاندھوں پر آ گئی ہے اور امید واثق ہے کہ وہ دیے کی لو تھمنے نہیں دیں گے۔ میری نیک تمنائیں اور دعائیں سر نیر کے ساتھ ہیں۔
نسیم صبح کے جھونکے ، ہمیں بھی چھو کے گزر
ہمیں بھی یاد ہیں کچھ موسم بہار سے لوگ{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں