سرائے صالح‘ ہری پور پہاڑوں کے دامن میں بسی یہ پرسکون بستی ہمیشہ سے اپنی سادگی، اخلاص اور مہمان نوازی کے سبب دلوں کو کھینچتی ہے۔ مگر رواں سفر ایک خاص نسبت رکھتا تھا، کیونکہ اس کا مرکز وہ ہستی تھی جس کا نام لبوں پر آتے ہی احترام کی خوشبو پھیل جاتی ہے حضرت پیر پیرزادہ عبد المنان شاذلی۔ جن سے ہماری ملاقات امجد اقبال ملک کے ہمراہ آغوش نورانی فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام کتب کی ایک تقریبِ رونمائی میں پہلی بار ہوئی پیرزادہ صاحب سے سامنا ہوا تو یوں لگا جیسے دل پر کوئی نرم سا ہاتھ رکھ دیا گیا ہو۔ نوجوان فلاسفر، صاحبِ مطالعہ، متوازن فکر اور نفیس گفتگو۔ملاقات مختصر مگر اثر دیرپا تھا۔اپنے دوست امجد اقبال ملک آف شمس آباد سے مشاورت کے بعد فیصلہ ہوا کہ جلد ان کے آستانے پر حاضری دی جائے۔اٹک واپسی پر بزرگ شاعر و ادیب راجہ مختار احمد سگھروی صاحب لاہور سے لوٹے تو فوراً پروگرام طے پا گیا۔ میں امجد اقبال ملک اور راجہ مختار احمد سگھروی صاحب سابق ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر سکینڈری اٹک سفر پر روانہ ہوئے۔ دورانِ سفر امجد اقبال ملک صاحب صاحبزادہ صاحب سے مسلسل رابطے میں رہے ایک ایک لمحہ کی فکر، مہمانوں کی محبت میں ڈوبی آواز‘جیسے دل کی دھڑکن راستہ دکھاتی ہو۔اٹک سے ہم بذریعہ غازی موٹر وے سے شاہ مقصود انٹرچینج اترے تو استقبال کے لیے پیرزادہ صاحب کے بھائی سڑک کنارے سرائے صالح موجود تھے۔ ان کی رہنمائی میں ہم ریلوے لائن کے ساتھ بنے ہوئے ان کے گھر پہنچے۔ دروازہ کھلا تو یوں لگا کہ صدیوں کی روایت نے بانہیں وا کر دیں۔ خوشبو، پھولوں کا گلدستہ، چائے کی گرم بھاپ اور چہروں پر سجی عاجزی یہ سب کچھ ایک کامل میزبان کی کہانی سنا رہا تھا۔علمی اور روحانی موضوعات پر نشست ہوئی۔ پیرزادہ عبد المنان شاذلی ہر موضوع پر مدلل اور مہذب گفتگو کرتے رہے، بلا تفریق، بلا تعصب۔ گفتگو کے دوران اذان ہوئی تو انہوں نے اپنی اقامت میں نماز کی امامت
کروائی۔ بعد ازاں کھانے کا دور شروع ہوا اور یہ دور صرف کھانے کا نہ تھا، محبت اور ادب کا تھا۔ پیرزادہ صاحب اور ان کے بھائی (جو محکمہ پولیس سروس میں ہیں) خود کھانا پیش کرتے رہے۔ انکساری کا یہ منظر دل میں ہمیشہ کے لیے ثبت ہو گیا۔کھانے کے بعد امجد اقبال ملک نے سابق صدرِ پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان کے حوالے سے سوال کیا۔ پیرزادہ صاحب نے بتایا کہ ان کی آخری آرامگاہ”ریحانہ“گاؤں میں واقع ہے قریب ہی۔ فیصلہ ہوا کہ وہاں حاضری دی جائے۔ کچھ دیر بعد ہم سابق صدر ایوب خان کے آباؤاجداد کے مشترکہ قبرستان پہنچے۔ فاتحہ کے دوران ایک تاریخ لمحوں میں سمٹ آئی۔ پھر خیال آیا کہ ان کا آبائی گھر بھی دیکھا جائے۔ قبرستان سے کچھ فاصلے پر وہ قدیم گھر نظر آیا، جو مشترکہ وراثت کی وجہ سے اولاد میں تقسیم ہو چکا مگر ایک تاریخی حجرہ اب بھی اپنی پوری شان کے ساتھ موجود تھا۔ جہاں ان کے ملازمین نے پرتپاک خیرمقدم کیا، مگر وقت کی کمی آڑے آ گئی، ورنہ چائے کا دور بھی ہو جاتا۔رات گئے ہم شاہ مقصود سے موٹر وے پر واپس اٹک پہنچے۔ مگر سفر ختم ہو کر بھی ختم نہیں ہوا۔کیونکہ کچھ ملاقاتیں سفر نہیں ہوتیں سنہری نشان بن کر دل میں ٹھہر جاتی ہیں۔صاحبزادہ عبد المنان شاذلی کی مہمان نوازی، محبت میں بسی گفتگو، دسترخوان کا ذائقہ، اور دلوں کو چھو لینے والی عاجزی یہ سب کچھ مدتوں یاد رہے گا۔اللہ کریم ان کے علم، عمل اور رزق میں برکت عطا فرمائے۔ آمین
اقبال زر قاش