پاکستان میں ہر دوسرے ہفتے کہیں نہ کہیں “عالمی کتاب میلہ” منعقد ہو رہا ہوتا ہے۔ لاہور، کراچی، اسلام آباد، فیصل آباد، حتیٰ کہ ضلع سطح کے شہروں میں بھی رنگین بینرز لہرائے جا رہے ہیں۔ لیکن ان میلوں کی حقیقت کیا ہے؟ زیادہ تر جگہوں پر کتابیں نہیں، فوٹو سیشن ہوتے ہیں۔ مصنف نہیں، “مہمانِ خصوصی” ہوتے ہیں جو کبھی کتاب نہیں کھولتے۔ اور ایوارڈز؟ وہ تو بس شیلڈز کا ایک کاروبار بن گئے ہیں۔
یہ دھندہ اتنا پھیل چکا ہے کہ اب شیلڈ بنانے والے کاریگر بھی شکایت کرتے ہیں کہ “سر، اب تو سونا چاندی ختم ہو گئی، صرف پلاسٹک کی گولڈن شیٹ لگا کر کام چلا رہے ہیں”۔ ایک شیلڈ کی لاگت سوا دو سو روپے، مارکیٹ ویلیو دس ہزار سے پچاس ہزار تک۔ اور جو لوگ یہ شیلڈز دیتے ہیں، انہیں “لٹریری ایوارڈ” کا سرٹیفکیٹ بھی مفت میں پرنٹ کروا لیتے ہیں۔
کتاب میلے کے نام پر جو ٹینٹ لگتے ہیں، ان میں 70 فیصد سٹالز تو کاسمیٹکس، جوتوں اور بریانی کی دکانوں کے ہوتے ہیں۔ کتابوں کے سٹال پر بیٹھے “پبلشرز” دراصل فوٹو کاپی مشینیں چلا رہے ہوتے ہیں۔ نئی کتاب کی بجائے پرانی کتابوں کا فوٹو کاپی سیٹ 200 روپے میں فروخت ہوتا ہے۔ لیکن سٹیج پر بیٹھے مہمانِ خصوصی کو یہی بتایا جاتا ہے کہ “یہ ہماری نئی اشاعت ہے”۔
ایوارڈز کا تو ایک الگ مافیا بن چکا ہے۔ ایک ہی شخص ایک سال میں “بہترین ناول نگار”، “بہترین شاعر”، “بہترین کالم نگار” اور “بہترین بچوں کے مصنف” کا ایوارڈ لے جاتا ہے۔ حالانکہ اس نے پچھلے پانچ سال میں ایک بھی کتاب نہیں لکھی۔ بس سوشل میڈیا پر دو چار پوسٹس کیں، اور “ایوارڈ کمیٹی” کو پانچ ہزار روپے فیس جمع کروا دی۔ بس، شیلڈ تیار!
اور پھر سستی شہرت کے اسیر چند “مصنف” اپنی کتابوں کے سرورق پر تعلیمی قابلیت بھی جھوٹی لکھ دیتے ہیں۔ میٹرک پاس ہے، لکھ دیا “بی اے”۔ انٹر پاس ہے، لکھ دیا “ایم اے اردو”۔ کچھ تو “پی ایچ ڈی” تک پہنچ جاتے ہیں، حالانکہ انہوں نے کبھی یونیورسٹی کا دروازہ بھی نہیں کھولا۔ مقصد صرف ایک: قارئین پر دھاک بٹھائی جائے، کتاب جلدی بکے۔ یہ جھوٹ قحطِ قارئین کو دھوکہ دینے کا گھناؤنا طریقہ ہے۔ ایسے ادبی ٹھگوں کو بے نقاب کرنا ازحد ضروری ہے، تاکہ آئندہ کوئی اوچھی حرکت کرنے سے پہلے سوچے۔
ان میلوں میں سب سے دلچسپ کردار “چیف گیسٹ” کا ہوتا ہے۔ جو شخص کبھی لائبریری نہیں گیا، وہ اچانک “ادب کا سرپرستِ اعلیٰ” بن جاتا ہے۔ اسے دعوت دی جاتی ہے، پروٹوکول دیا جاتا ہے، فوٹو سیشن ہوتا ہے، اور بدلے میں وہ اپنے کاروباری دوستوں کو شیلڈز بانٹتا ہے۔ کتاب سے اس کا کوئی تعلق نہیں، بس تصویر وائرل ہو جاتی ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ کھلے عام ہو رہا ہے، اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ادارے خاموش ہیں، قلمکار خاموش ہیں، قاری تو ویسے بھی غائب ہے۔ جو چند سنجیدہ لوگ احتجاج کرتے ہیں، انہیں “حاسد” اور “ناکام” کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔ کیونکہ احتجاج کرنے والے کے پاس نہ شیلڈ ہے، نہ فوٹو سیشن، نہ واٹس ایپ گروپ میں “مبارکباد” کے پیغامات۔
یہ دھندہ صرف پیسے کا نہیں، عزت کا بھی ہے۔ جو شخص دس شیلڈز جمع کر لے، وہ اچانک “سینیئر ادیب” بن جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ ٹی وی ٹاک شوز میں بلایا جانے لگتا ہے۔ وہاں بیٹھ کر وہ “نوجوان نسل کو کتاب سے جوڑنے” کے لیکچر دیتا ہے، جبکہ اس کی اپنی کتاب کی کاپیاں بھی اس کے گھر میں دیمک کھا رہی ہوتی ہیں۔
حکومتی اداروں کی خاموشی بھی قابلِ غور ہے۔ ثقافتی محکمے، اکیڈمیز، لائبریریاں، سب کے سب تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ بجٹ تو کتابوں کے لیے مختص ہوتا ہے، لیکن خرچ شیلڈز اور بینرز پر ہو جاتا ہے۔ ایک کتاب میلے کے نام پر لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں، لیکن لائبریریوں میں نئی کتابیں نہیں آتیں۔
اس سارے تماشے کا سب سے بڑا نقصان قاری کا ہو رہا ہے۔ جو شخص سچے دل سے کتاب خریدنے آتا ہے، وہ مایوس ہو کر واپس چلا جاتا ہے۔ اسے نہ اچھی کتاب ملتی ہے، نہ اچھا ماحول۔ بس شور، دھوم، اور جعلی تعریفیں۔ آہستہ آہستہ وہ بھی کتاب سے دور ہو جاتا ہے۔ اور یہی تو اس دھندے کا اصل مقصد ہے: کتاب کو مارکیٹ سے باہر کر دو، شیلڈ کو اندر لے آؤ۔
آخری بات یہ کہ جب تک ہم خود اس جعلی پن کو مسترد نہیں کریں گے، یہ سلسلہ نہیں رُکے گا۔ اگلی بار جب کوئی آپ کو “عالمی کتاب میلہ” کی دعوت دے، یا “لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ” کی تصویر دکھائے، یا سرورق پر جھوٹا “بی اے، ایم اے” لکھی کتاب تھمائے، تو بس ایک سوال پوچھیں: “بھائی، پچھلے دس سال میں آپ نے کون سی کتاب لکھی یا پڑھی؟”اگر جواب نہ ملے تو شیلڈ کو وہیں چھوڑ دیں۔کتاب زندہ رہے گی، جھوٹ مر جائے گا۔
