اٹک کی دھرتی ہمیشہ اُن لوگوں پر فخر کرتی آئی ہے جنہوں نے اپنی ذات سے بڑھ کر دوسروں کے لیے جینا سیکھا۔ اٹک تحصیل حضرو کے نواحی علاقے حمید گاؤں میں آغوش نورانی فاؤنڈیشن کی چیئرپرسن نورین اسلم عرف نورانی باجی نے اپنے والدِ محترم حاجی ملک اسلم خان مرحوم کے ایصالِ ثواب کے لیے جو فلاحی منصوبہ شروع کیا، وہ نہ صرف انسانیت کی خدمت کا روشن استعارہ ہے بلکہ عورت کی قوتِ عمل اور خلوصِ نیت کی بہترین مثال بھی۔

تقریباً 27 لاکھ روپے کی لاگت سے “بچیاں والا (بچیوں والا) قبرستان” کی چاردیواری کی تعمیر کوئی معمولی کام نہیں۔ یہ وہ منصوبہ ہے جو کسی سرکاری یا سیاسی سرپرستی کے بغیر، مکمل طور پر ذاتی جذبے اور خالص نیت سے شروع کیا گیا۔ ایسے وقت میں جب بیشتر لوگ ذاتی آسائشوں اور دکھاوے کی دوڑ میں لگے ہیں، نورانی باجی نے اپنے والد کے ایصالِ ثواب کو اجتماعی بھلائی سے جوڑ کر خدمتِ خلق کی وہ مثال قائم کی ہے جس کی نظیر کم ہی ملتی ہے۔
40 کنال پر مشتمل اس قبرستان کی چاردیواری کا 60 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے، جبکہ باقی کام آخری مراحل میں ہے۔ لیکن اصل بات صرف کنکریٹ کی دیوار نہیں – اصل دیوار تو نیکی اور خلوص کی ہے جو ایک بیٹی نے اپنے مرحوم والد کے نام سے تعمیر کی۔ یہ اقدام ایک پیغام ہے کہ عورت اگر ارادہ کر لے تو وہ معاشرے میں بھلائی کی ایسی بنیاد رکھ سکتی ہے جو نسلوں تک قائم رہے۔
اس موقع پر حمید گاؤں کے معززین، علماء، ادباء، ماہر تعلیم، صحافیوں ،شعراء اور سماجی رہنماؤں کی موجودگی میں جو تقریب ہوئی، وہ دراصل خدمت کے جذبے کا جشن تھی۔ مقررین نے بجا طور پر کہا کہ حاجی ملک اسلم خان مرحوم کی زندگی خدمتِ خلق سے عبارت تھی اور اُن کی بیٹی نورانی باجی نے اُن کے مشن کو زندہ کر کے ثابت کیا کہ نیکی صرف مردانہ صفت نہیں، بلکہ عورت کے دل میں بھی ویسا ہی دریا بہتا ہے۔
میں نے خود اس تقریب میں شریک تھا۔ جب سورج ڈھل رہا تھا اور گاؤں کی فضاء میں اذان کی صدائیں گونج رہی تھیں، تو مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے یہ چاردیواری صرف کنکریٹ کی نہیں بلکہ دعاؤں سے بن رہی ہے۔ نورانی باجی کی آنکھوں میں اپنے والد کے لیے عقیدت اور خدمت کے جذبے کی جھلک دیکھ کر دل مطمئن ہو گیا کہ ابھی بھی یہ معاشرہ مکمل اندھیروں میں نہیں ڈوبا۔
اس تقریب میں صاحبزادہ کامران تبسم نوری، ڈاکٹر حسنین شیخ، علامہ عبداللہ، مفتی وقار، نوید اعوان، راجہ مختار احمد سگھروی، امجد اقبال ملک، ملک خالد حسین، ظہیر عباس حضرو، منیر احمد، سردار اظہر رشید چغتائی اور دیگر ممتاز شخصیات کی شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ نیکی کے کام کو عزت دینے والے لوگ آج بھی موجود ہیں۔ ہر مقرر کے لہجے میں تحسین کے ساتھ ایک امید بھی تھی – امید کہ نورانی باجی جیسے کردار ہمارے معاشرے کو انسان دوستی کی راہوں پر واپس لے آئیں گے۔
آغوش نورانی فاؤنڈیشن کا نام اب صرف ایک فلاحی ادارہ نہیں بلکہ ایک تحریک بنتا جا رہا ہے۔ یہ تحریک اُن دلوں میں روشنی پیدا کر رہی ہے جو خدمت کو عبادت سمجھتے ہیں۔ فاؤنڈیشن کے تحت مختلف فلاحی منصوبے، ضرورت مندوں کی مدد، اور سماجی شعور کی بیداری کے لیے جو کام ہو رہا ہے، وہ خاموش مگر مضبوط انقلاب کی صورت اختیار کر چکا ہے۔
ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ خواتین کی قیادت میں ایسے فلاحی اقدامات ہماری سوسائٹی میں تبدیلی کا پیش خیمہ ہیں۔ جب عورت صرف گھریلو دائرے سے نکل کر اجتماعی بھلائی کا کردار ادا کرتی ہے، تو وہ نہ صرف ایک نسل بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی خیر کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ نورین اسلم المعروف نورانی باجی اسی فکر کی عملی تصویر ہیں۔
حاجی ملک اسلم خان مرحوم کی تربیت اور دعاؤں نے اُن کی بیٹی کو جو جذبہ دیا، وہ آج سینکڑوں دلوں کو متاثر کر رہا ہے۔ حمید گاؤں کے لوگ جس عقیدت سے اس منصوبے کو دیکھتے ہیں، وہ دراصل اُس ایمان کا ثبوت ہے جو کسی خالص نیت سے کیے گئے عمل میں پوشیدہ ہوتا ہے۔
آخر میں جب تقریب اختتام کو پہنچی تو آغوش نورانی فاؤنڈیشن کی جانب سے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا گیا۔ مگر سچ پوچھیں تو شکر ادا کرنے والی صرف فاؤنڈیشن نہیں تھی – شکر تو ہم سب کو ادا کرنا چاہیے اُن کرداروں کا جو خاموشی سے انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔ نورانی باجی نے ثابت کر دیا کہ اگر دل میں اخلاص ہو تو ایک بیٹی بھی اپنے والد کے نام کو خدمت کے ذریعے امر کر سکتی ہے۔
یہ روداد ایک قبرستان کی دیوار کی تعمیر کی نہیں- یہ اُس جذبے کی ہے جو موت کے بعد بھی زندگی بانٹتا ہے۔