کتاب میلوں کی آڑ میں لوٹ مار کا کھیل

گزشتہ چند برسوں سے کتاب میلوں کا رواج ہمارے چھوٹے شہروں میں خوش آئند انداز میں بڑھا ہے۔ بظاہر ان میلوں کا انعقاد علم و ادب کی ترویج کے لیے کیا جاتا ہے، مگر جب پردہ ہٹتا ہے تو پس منظر میں وہی روایتی چہرے، وہی مفادات اور وہی بندربانٹ کا منظر نامہ دکھائی دیتا ہے۔ علم و کتاب کے نام پر سجنے والے یہ میلے اکثر مقامی انتظامیہ، میونسپل کمیٹیوں، اور بعض ادبی تنظیموں کے لیے کمائی کا ایک نیا ذریعہ بن چکے ہیں۔

کم و بیش ہر ضلعے میں ان میلوں کے لیے عوامی خزانے سے لاکھوں روپے کے فنڈز جاری کیے جاتے ہیں۔ بلوں کی فہرست میں عارضی سٹیج، ساونڈ سسٹم، پینا فلیکس،ٹینٹ، بینرز، لائٹنگ اور مہمانوں اور بک سیلرز کے اخراجات تو شامل ہوتے ہیں، مگر اصل کھیل اِن ہی بلوں میں چھپا ہوتا ہے۔ سرکاری نرخ سے کئی گنا زیادہ قیمتوں پر بل منظور کروا لیے جاتے ہیں، اور جو رقم کتابوں یا ادبی سرگرمیوں پر خرچ ہونی چاہیے، وہ ٹھیکیداروں اور چند خوش نصیب اہلِ ادب کی جیبوں میں پہنچ جاتی ہے۔

کتاب میلوں کا اہتمام کرنے والی بعض ادبی تنظیمیں، جن کا مقصد بظاہر مطالعے کا فروغ اور کتاب دوستی کا پیغام ہوتا ہے، دراصل سرکاری تعلقات اور ذاتی مفادات کے گرد گھومنے والے ایک چھوٹے مگر منظم گروہ کا حصہ بن چکی ہیں۔ یہ لوگ ہر سال نیا نام، نیا تھیم اور نیا نعرہ لے کر سامنے آتے ہیں، لیکن مقاصد وہی رہتے ہیں،  سرکاری وسائل پر ہاتھ صاف کرنا، تصویری کوریج حاصل کرنا، اور اپنی تنظیم کے نام کو چند دن کے لیے نمایاں کرنا۔

پبلشرز اوربک سیلرز کے نام پر درجنوں اسٹالز لگائے جاتے ہیں، مگر بیشتر اسٹال خالی، غیر متعلقہ یا محض دکھاوے کے لیے موجود ہوتے ہیں۔ مقامی کتاب فروشوں کو کونے میں دھکیل دیا جاتا ہے اور بڑے شہروں کے تجارتی نمائندے بلوا کر انہیں“علمی سرگرمی”کا لبادہ پہنا دیا جاتا ہے۔ شام ڈھلے میلے کے اختتام پر، کتب کی جگہ فوٹو سیشن، اسٹیج پر تعریفی اسناد، اور چند مخصوص چہروں کی مسکراہٹیں باقی رہ جاتی ہیں۔

اور پھر میدان میں اُترتے ہیں وہ ”فنکار ادیب“، جنہوں نے ادب کو بھی شعبدہ بازی میں بدل دیا ہے۔ یہ لوگ اپنی کتابوں کے اسٹال لگا کر زبردستی خریدار بناتے ہیں، سوشل میڈیا پر تصویری نمائش کرتے ہیں، اور خود کو ”عظیم قلمکار“ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ چند دن پہلے شائع
 ہونے والی ایک کتاب کے مصنف کی مثال لیجیے،  موصوف میٹرک پاس ہیں، لیکن کتاب کے سرورق پر اپنی تعلیمی قابلیت ”بی اے“ لکھ کر علمی برتری جتانے کی کوشش کی ہے۔ ایسی حرکتیں اِن بوزنے ادیبوں کے ادبی قد کو بلند نہیں، بلکہ مزید چھوٹا کر دیتی ہیں۔ مگر ان جیسوں کو اس سے کیا لینا دینا؟ ان کا ماٹو تو یہی ہے: بدنام ہوں گے تو کیا، نام تو ہوگا!

یہ کتاب میلے اگر واقعی علمی ترویج کے لیے ہوتے تو عوامی لائبریریوں کے لیے کتابیں خریدی جاتیں، اسکول و کالج کے طلبہ کو رعایتی کتب فراہم کی جاتیں، یا مقامی مصنفین کی تخلیقات کو سراہا جاتا۔ مگر افسوس کہ یہاں کتاب نہیں، بل چلتے ہیں؛ مطالعہ نہیں، مالی لین دین ہوتا ہے۔

وقت آگیا ہے کہ ضلعی انتظامیہ اس مصنوعی چمک دمک کے بجائے حقیقی تعلیمی و ادبی سرگرمیوں پر توجہ دے۔ اگر کتاب میلہ ہی لگانا ہے تو اس کے تمام اخراجات، اعزازات اور مالی تفصیلات شفاف طریقے سے عوام کے سامنے رکھی جائیں۔ ادب کے نام پر دھندہ بند ہونا چاہیے، ورنہ آنے والی نسلیں کتاب نہیں، کتاب میلوں کے اسکینڈلز پڑھنے پر مجبور ہوں گی۔