
نوید ملک‘اسلام آباد
15 مئی 2024 کو موبائل چہکنے لگا اور دوسری طرف سے آواز آئی کہ آپ نے آج رات مجھ سے ملاقات کرنی ہے۔میں نے حامی بھر لی اور اکیڈمی سے چھٹی کرنے کے بعد ادھڑتے ہوئے رستوں سے ہوتا ہوا ڈی ایچ اے میں داخل ہوا۔کچھ لمحات کے لیے سکون میسر آیا اور اس کے بعد ایک ٹوٹی پھوٹی بل کھاتی ہوئی سڑک ”مغل گاو ں“ کی طرف لے گئی۔گھنے اندھیرے اور کتوں کی بھونکنے کی آوازوں سے وحشتیں ابھرتی رہیں۔آخرِ کار میں ایک ایسے گاو ں پہنچا جہاں کچے پکے، درمیانے ہر طرح کے مکانات تھے۔فون ملایا اور پھرایک دمکتا ہوا چہرا اندھیرے میں نظر آیا۔ہاں! ”یاسر صابری“ ایک کشادہ گلی سے ہوتے ہوئے سیدھا ایک وسیع صحن میں پہنچے جہاں کوئی گیٹ نہیں تھا۔سکون تھا، محبت تھی، خلوص تھا۔خوبصورت لہجے کے پوٹھوہاری شاعر خرم حمید ناظم بھی وہاں موجود تھے اور یہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی۔
یاسر صابری ایک ایسے گاو ں میں رہتے ہوئے ادب اور ادیب کی خدمت کر رہا ہے جہاں کبڈی، بیل دوڑ، مرغا لڑائی اور ایسی کئی روایات موجود ہیں۔قلم اور کتاب سے لوگوں کا دور دور کا رشتہ بھی نہیں۔لیکن اس کے باوجود وہاں کے لوگ اخلاص کی دولت سے مالا مال ہیں۔ اجداد کی تہذیب اور روایات کے علمبردار ہیں۔انھیں یاسر صابری جیسے ایسے چراغ کی ضرورت ہے جو علمی کی روشنی کی طرف ان کی توجہ دلائے۔
یاسر صابری نے اپنے گھر میں”دارلمطالعہ“قائم کیا ہے اور کہتا ہے کہ زندگی میں کچھ تو کر جاؤں۔ دارالمطالعہ کا نام آپ نے ”خواجہ غریب نواز لائبریری“ رکھا ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ میں اپنے گاو ں کے لوگوں کے دلوں میں کتاب سے محبت کا جذبہ جگانا چاہتا ہوں۔ یاسر صابری نے زندگی کے حوالے سے بات کی تو میں سوچنے لگا یہ شخص کتنا عظیم ہے کہ اِس دور میں، ہر شعبہ میں تیزرفتاریوں کے باوجود بامقصد زندگی گزارنے کا قائل ہے۔ ”کچھ کر جاو ں“ یہ تین الفاظ چھوٹے نہیں بلکہ بہت بڑا خزانہ ہیں۔جسے یہ خزانہ مل جائے اُس پر زندگی کے اسرار کھلنے شروع ہو جاتے ہیں۔
یاسر صابری نے اپنی دوسری تصنیف ”سچ بولتا ہے“ عنایت کی۔ اس کتاب میں شعراءاور ادباءکے وہ انٹرویوز شامل ہیں جو یاسر صابری نے خود اُن سے لیے اور کئی اخبارات میں شائع بھی کروائے۔ اس کتاب میں معتبر شعراءاور شاعرات کے انٹرویوز شامل ہیں۔ آپ نے نسلِ نو کے نمائندہ شعراءاور شاعرات کے انٹرویوز شامل کر کے احسن قدم اٹھایا ہے۔ یہ سارا کام بغیر کسی لالچ کے کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے بھی عہد ساز شعرائ، رجحان ساز شعراءکے انٹرویوز پر مشتمل کتاب آپ منظر ِ عام پر لائے اور ادبی حلقوں میں اپنی شناخت قائم کی۔ آپ کے پاس بہت سے ادیبوں کے انٹرویوز موجود ہیں۔ انٹرویوز شائع کرنے کا یہ ایک سلسلہ ہے اور دوسری کتاب اِسی سلسلے کی دوسری کڑی ہے۔ انٹرویوز کے ساتھ شعراءاور ادباءکے بارے میں اہم معلومات اور حوالہ جات بھی درج ہیں جو یقیناً مقالہ نگاروں کے بہت کام آئیں گے۔ کتاب ”ادب، سماج، انسانیت“ پبلی کیشنز نے عمدگی سے شائع کی ہے۔
کتاب کا نام ”سچ بولتا ہے“ غالب کے اس شعر سے اخذ کیا گیا ہے:
صادق ہوں اپنے قول کا غالب خدا گواہ
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے
یاسر صابری نے مستقبل کے منصوبہ جات بتائے، عصری شعری منظرنامے پر تبادلہ خیال کیا؛ کئی مسائل کی نشاندہی کی۔ان کا گاو ں سرسبزو شاداب ہے اور یقیناً یہاں کے رہنے والے بھی شاداب اذہان کے مالک ہیں مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ گاو ں کی تاریک راتوں میں کوئی یاسر صابری جیسا فعال شخص جو زندگی میں اپنی حصے کی ذمہ داری نبھانا چاہتا ہے؛ اسی طرح کتابوں کی روشنی پھیلاتا رہے؛ قلم کے ساتھ جڑا رہے؛ اخلاص سے کام کرتا رہے۔آپ کے والد بھی تصوف کے حوالے سے تحقیقی کام کر رہے ہیں۔بد قسمی سے میری ملاقات اُن سے نہیں ہو سکی؛ وہ کسی فوتگی میں گئے ہوئے تھے۔آپ نے گاو ں کی ادبی تنظیم کی طرف سے مجھے بھی اعزازی سند دی جو کئی اعزازات سے زیادہ قیمتی ہے۔پر تکلف ضیافت کا اہتمام کیا جس کے بعد شعری نشست بھی ہوئی۔
خرم حمید ناظم نے پوٹھوہاری شاعری سنائی۔پوٹھوہاری شاعری میں زیادہ تر موضوعات پر شاعری کی جاتی ہے؛جیسے موت، زندگی، اقدار وغیرہ۔آپ نے موت اور زندگی کے حوالے سے عمدہ شاعری سنائی۔یہ شاعری مختلف مجالس، عرس اور میلوں میں سنائی جاتی ہے اور لوگوں میں شعور تقسیم کیا جاتا ہے۔اس کے بعد یاسر صابری نے دو خوبصورت اردو غزلوں سے نوازا۔ میں نے بھی ایک غزل سنائی۔یوں ایک عمدہ شعری نشست بھی ہو گئی۔ یاسر صابری اور خرم حمید ناظم نے بتایا کہ گاو ں اور مضافات میں کئی لوگ ہیں جو پوٹھوہاری، پنجابی اور اردو میں کسی نہ کسی صنف میں کچھ نہ کچھ لکھتے ہیں۔میں نے درخواست کی ہے کہ ان کے نام اور نمبروں کی لسٹ مہیا کی جائے تاکہ گاو ں کے خوبصورتیوں میں ادبی چاشنی بھی بکھیری جا سکے۔
رات کے گیارہ بجے تھے اور میں اسی گھنے اندھیرے میں گھر کی طرف رواں دواں تھا مگر میرے اندر بہت سی روشنیاں تھیں۔مجھے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں بھی نہیں آ رہی تھیں بلکہ اشعار میرے وجدان میں گونج رہے تھے۔ادھڑے ہوئے رستے میری ”بائیک“ کو بہت محبت سے الوداع کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے
”یقیناً تاریک راتیں ایک دن اجالے میں بدلیں گی۔“
غزل
تمھاری ادائیں ہیں ساری قیامت
مرے دل پہ تم نے اتاری قیامت
کبھی تم نے دیکھی قیامت ہے ایسی
حسیں ہے، ہے سب سے وہ پیاری قیامت
قیامت وہی ہوش تک جو اڑا دے
مرے ہوش پر ہے وہ طاری قیامت
جو ہیں نیک ان کے لیے ہے یہ رحمت
گنہ گار پر ہوگی بھاری قیامت
میں یاسر نہ چاہوںگا تیرا تعلق
تری دشمنی اور یاری قیامت
ان کا تخلص یاسر ہے وہ 25 اکتوبر 1976ءڈھوک ملکاں، تحصیل و ضلع اسلام آباد میں پیدا ہوئے انھوں نے شاعری کا آغاز1997ءمیں کیا تھا پسندیدہ شعراءمیں میر تقی میر، علامہ اقبال، بدم شاہ وارثی
شکیل بدایونی، پروین شاکر و دیگر شامل ہیں ان کی تصنیفات:اندازِ گفتگو 2012ء(شعرائ و اداباءکے انٹرویوز) ”سچ بولتا ہے“ اور تاریک راتیں شائع ہو چکی ہیں۔