جہیز اور لالچ دو ایسے نام ہیں جن کی وجہ سے ہمارے معاشرے سے خالص پن خلوص محبت حسن سیرت اور اخلاق کا تقریباً جنازہ نکل چکا ہے آج ہر شخص صرف اسی فکر میں لگا ہوا ہے جس شخص سے وہ کوئی رشتہ بنانے جا رہا ہے اُس سے فائدہ کیا حاصل ہو گا آپ اپنے اردگرد نظر کریں تو آس پاس بے شمار ایسی لڑکیاں نظر آئیں گی جو ہر لحاظ سے حسن سیرت نیک اور پرہیز گار ہوں گی لیکن اُن کا رشتہ محض اس وجہ سے نہیں ہو رہا کہ اُن کے والدین غریب ہیں اور اچھا جہیز نہ دے سکتے ہیں اور اُن کی بچیوں کے سر میں سفیدی آچکی ہے اور وہ عمر رسیدہ ہو چکی ہیں اندازے کے مطابق ہر گاؤں اور محلہ میں کم و بیش پچاس کے قریب ایسی لڑکیاں موجود ہیں اور ملکی سطح پر ان کی تعدار لاکھوں میں ہے ان کے رشتے نہیں ہو پارہے ہیں لالچ ہمارے زہنوں پر پوری طرح قابض ہو چکا ہے اور وہ ہمیں اچھائی کیطرف جانے ہی نہیں دے رہا ہے جہیز ایک ایسی لعنت بن چکا ہے جو ہمیں اچھے رشتوں کی طرف جانے ہی نہیں دیتا ہے کچھ لڑکیوں کے رشتے اس لیے نہیں ہو پارہے ہیں کہ اُن کے والدین کو تعلیم یافتہ مال دار اور اپنے برابر کا رشتہ دستیاب نہیں ہو رہا اور وہ اپنی بچیوں کی زندگی برباد کر رہے ہیں جہیز اور لالچ کو سامنے رکھ قائم ہونے والے رشتے صرف اُس وقت تک چلتے ہیں جب تک ڈیمانڈز پوری ہوتی رہیں زرا ہاتھ کھینچااور رشتے برباد ہوگئے ہم ایسے شرمیں مبتلا ہو چکے ہیں جس سے چھٹکارا ناممکن ہو گیا ہے ہم ایسے لالچوں میں گہر چکے ہیں کہ ہمیں اندازہ ہی نہیں کہ یہ مرض کتنا خطرناک ہو چکا ہے جہاں ہمیں جہیز نظر آتا ہے اُس رشتہ میں خواہ کتنی ہی خامیاں ہوں مگر ہم لالچ میں آکر سب کچھ نظر انداز کر دیتے ہیں جہاں جہیز نظر نہیں آتا وہ رشتہ کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو ہمیں کوئی نہ کوئی عیب نظر آجاتا ہے امیر اور غریب میں بڑھتا ہوا فرق سماجی ناہموار یوں میں اضافے کا باعث ہے اس میں شک کی کوئی گنجائش باقی نہ ہے کہ اسلام نے نکاح جیسے بندھن کو کس قدر آسان بنا یا ہے ہم نے خود بلوغت کو پہنچنے والے مرد و خواتین کی شادیوں میں مصنوعی رکاوٹیں پیدا کر دی ہیں ایک طرف جہاں لڑکیوں کے والدین کے لیے شادی بیاہ جیسے فرائض سے ادائیگی مشکل ہو چکی ہے وہاں لڑکوں کے لیے بھی گھر بھسانا بہت دشوار ہو چکا ہے پاکستان کو قائم ہوے 65سال گزر چکے ہیں کی حکومتوں نے جہیز جیسی لعنت کو ختم کرنے کے دعوے کیے لیکن اب تک اس رسم کو ختم نہ کیا جا سکا ہم تو ایسے نبی کی اُمت ہیں جس نے یہ سنت قائم کی کی غریب والدین اور بیواؤں سے نکاح کیے جائیں خالص پن صرف اور صرف غریب والدین کی بچیوں میں نظر آئے گا لالچ پر محیط رشتے میں کبھی بھی خلوص کی خوشبو نہیں آئے گی امیر لڑکوں کے والدین اگر غریب لڑکیوں سے رشتہ جوڑیں اور امیر لڑکیوں کے والدین غریب لڑکوں سے رشتے جوڑنے شروع کر دیں تو کھوئے ہوئے مقام کو دوبارہ حاصل کیا جاسکتا اور رشتوں کے اصلی پن سے لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے اب بھی وقت ہے کہ مذ کورہ بالا تمام زمہ داران اپنی اپنی احثیت کے مطابق اپنا کردار ادا کریں بصورت دیگر پانی سر سے گزر جائے گا اور روز محشر اللہ کے ہاں جوابدہ ہونا پڑے گا کہ تمارے پڑوس میں غریب لڑکی موجود تھی اُس کو کیوں ٹھکرایا اُس روز کوئی بھی کسی کی مدد نہیں کر سکے گا سوائے اللہ جس کی چاہے گا ۔{jcomments on}
238