حقائق مسخ کیے جا رہے ہیں، شفاف تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنایا جائےاہلِ سنت تنظیمات کا مریم نواز کی پریس کانفرنس پر ردِعمل

لاہور (حذیفہ اشرف)تنظیماتِ اہلِ سنت پاکستان نے وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی پریس کانفرنس پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر حکومت کا مؤقف درست ہے تو سانحہ مریدکے کی تحقیقات کے لیے فوری طور پر جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے تاکہ سچائی قوم کے سامنے آسکے۔اہلِ سنت قیادت نے مشترکہ بیان میں کہا کہ سانحہ مریدکے نے کروڑوں اہلسنت کے دل زخمی کر دیے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ “پرامن مذہبی طبقات کو دہشت گردی سے جوڑنا نہ صرف افسوسناک بلکہ اشتعال انگیز اقدام ہے۔ حکومت مساجد، مدارس، خانقاہوں اور علما و مشائخ کے خلاف بلاجواز کارروائیاں بند کرے۔”بیان میں شامل رہنماؤں میں سابق وفاقی وزرا سید حامد سعید کاظمی، پیر محمد امین الحسنات شاہ، ڈاکٹر ابوالخیر محمد زبیر، صاحبزادہ پیر میاں عبدالخالق القادری، پیر زادہ محمد امین قادری، خرم نواز گنڈاپور، صاحبزادہ حسن رضا، انجینئر ثروت اعجاز قادری، میاں جلیل احمد شرقپوری، فیصل قیوم ماگرے، قاری زوار بہادر، محمد رمضان مغل، پیر سید معصوم نقوی، مفتی محمد مقیم خان، محمد اکرم رضوی اور دیگر شامل تھے۔

قائدین نے کہا کہ مریم نواز کی پریس کانفرنس “حقائق کو مسخ کرنے اور عوام کو گمراہ کرنے کی ناکام کوشش” تھی۔ ان کے مطابق “مختلف مکاتبِ فکر کے نمائندوں کو بٹھا کر شہدائے اہلِ سنت کا مذاق اُڑانا اور تالیاں بجانا شرمناک فعل ہے۔”رہنماؤں نے واضح کیا کہ تحریکِ لبیک پاکستان سے سیاسی اختلاف ہر شہری کا حق ہے، مگر نہتے مظاہرین پر گولیاں چلانا اور جابرانہ رویّہ اپنانا کسی طور درست نہیں۔ان کے مطابق اہلِ سنت کی مساجد، مدارس اور خانقاہوں پر چھاپے، علما کی گرفتاریاں اور مقدمات مذہبی ہم آہنگی کے خلاف سازش ہیں۔تنظیماتِ اہلِ سنت کے مطابق، “پریس کانفرنس میں شامل چند چہرے اہلِ سنت کی نمائندگی کے مجاز نہیں تھے، حکومت نے دانستہ طور پر حقیقی قیادت کو مشاورت سے دور رکھا۔”انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت یکطرفہ بیانیہ واپس لے، قوم سے معافی مانگے اور شفاف تحقیقات کے ذریعے اصل حقائق سامنے لائے۔آخر میں رہنماؤں نے کہا کہ اہلِ سنت ہمیشہ آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے پرامن جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔ “ہم مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے کے حامی ہیں مگر مذاکرات کے نام پر دھوکہ دہی بند کی جائے۔ حکومت کو اپنے وعدے پورے کرنے ہوں گے اور گرفتار علما و مشائخ کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔”