معلمِ جلیل، محققِ بے مثل، ڈاکٹر پیرعبدالقادرگیلانی

دنیا کے شور و غوغا میں کبھی کبھی ایسی ہستیاں پیدا ہوتی ہیں جن کا وجود روشنی کا مینار بن جاتا ہے۔ وہ خود بھی جگمگاتے ہیں اور دوسروں کے دل و دماغ کو بھی منور کرتے ہیں۔ ایسی ہی ایک شخصیت، صوفی، عالم، مفکر اور روحانی رہنما ڈاکٹر پیر سید عبدالقادر شاہ جیلانیؒ تھے جنہوں نے علم، روحانیت اور خدمتِ خلق کے امتزاج سے اپنی زندگی کو ایک کامل پیغام میں ڈھالا ڈاکٹر پیر سید عبدالقادر شاہ جیلانیؒ ۱۴ دسمبر ۱۹۳۵ء کو گاؤں سندھو سیداں (ضلع راولپنڈی) میں ایک روحانی خانوادے میں پیدا ہوئے ان کے والد پیر ولایت علی شاہ جیلانیؒ بھی ایک باعمل صوفی اور صاحبِ نسبت بزرگ تھے، جن کا شجرہ نسب براہِ راست حضرت عبدالقادر جیلانیؒ (غوثِ اعظم) تک پہنچتا ہے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے میں حاصل کی۔ کم عمری ہی سے دینی علوم میں گہری دلچسپی نے انہیں فقہ، اصولِ فقہ، حدیث اور تفسیر جیسے علوم کی طرف متوجہ کیا۔ بعدازاں اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرونِ ملک گئے، جہاں انہوں نے عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں میں مہارت حاصل کی۔ انہوں نے قانون (Law) میں گریجویشن، پھر ماسٹرز اور بعد ازاں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اپنی زندگی کا بیشتر حصہ انہوں نے یورپ میں گزارا ۱۹۷۰ء کی دہائی میں وہ برطانیہ تشریف لے گئے، جہاں لندن کے علاقے Walthamstow میں انہوں نے ایک عظیم دینی و روحانی مرکز دارالعلوم قادریہ جیلانیہ کی بنیاد رکھی۔ یہ ادارہ برطانیہ میں اسلام، علمِ دین اور تصوف کا ایک روشن مرکز بن گیا۔ یہاں میلادِ نبی ﷺ کی تقریبات، ذکر و فکر کی محافل اور نوجوان نسل کے لیے تربیتی لیکچرز کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوا ان کی مجالس روحانی سکون کا سرچشمہ تھیں۔ ان کے اندازِ بیان میں علم کی گہرائی، محبت کا جذبہ اور اخلاص کی حرارت شامل ہوتی تھی ڈاکٹر پیر سید عبدالقادر شاہ جیلانیؒ ہمیشہ یہ پیغام دیتے تھے کہ دین صرف عبادات کا نام نہیں بلکہ انسانیت، اخلاق، تعاون اور محبت کی دعوت دیتا ہے۔ ان کے نزدیک تصوف کا مقصد محض خانقاہی گوشہ نشینی نہیں بلکہ دل کو نرم کرنا، عقل کو روشن کرنا، اور انسان کو اللہ کی راہ میں لگانا ہے انہوں نے مغربی معاشروں میں بسنے والے مسلمانوں کو یہ پیغام دیا کہ وہ اپنے ایمان پر قائم رہتے ہوئے جدید دنیا کے چیلنجوں کا سامنا علم اور اخلاق کے ساتھ کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام ذہن کو قید نہیں کرتا بلکہ علم کے ذریعے آزاد کرتا ہے۔ ان کی علمی و سماجی خدمات بھی بیمثال ہیں۔ انہوں نے صرف وعظ و تلقین تک خود کو محدود نہیں رکھا بلکہ تعلیمی و فلاحی منصوبے قائم کیے، مستحق طلباء کے لیے وظائف مقرر کیے، اور ایسے ادارے بنائے جن کا مقصد علم و کردار کی مشترکہ تربیت تھا۔پاکستان میں ان کے نام سے منسوب ادارہ Pir Abdul Qadir Shah Jilani Institute of Medical Sciences (خیرپور میرزا) انہی کے مشن کا تسلسل ہے، جہاں طبی تعلیم و تحقیق کے ذریعے انسانیت کی خدمت جاری ہے پاکستان بھر میں دارالعلوم قادریہ جیلانیہ کے نام سے مدارس قائم ہیں، جہاں بچے حفظِ قرآن اور دینی علوم کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں ان کے ہزاروں شاگرد پھیلے ہوئے ہیں جو دینِ اسلام کی خدمت میں مصروفِ عمل ہیں اسی مشن کے تحت انہوں نے انٹرنیشنل قادریہ جیلانیہ اسلامک یونیورسٹی کی بھی بنیاد رکھی ان کے روحانی مشن کا ایک نمایاں پہلو بین المذاہب مکالمے کا فروغ تھا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ“محبت ہر دل کا حق ہے، نفرت علم سے نہیں بلکہ جہالت سے جنم لیتی ہے۔ ان کی محافل میں نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم بھی شریک ہوتے اور سب ان کے کردار و گفتار سے متاثر ہوتے اکتوبر ۲۰۲۵ء میں لندن میں ان کا وصال ہوا۔ ان کی نمازِ جنازہ جامع مسجد غوثیہ، لیٹن اسٹون (Jamia Masjid Ghousia, Leytonstone, London) میں ادا کی گئی، جسے برطانیہ کی سب سے بڑی جنازہ تقریب قرار دیا گیا۔ ہزاروں مریدین، علماء اور عوام نے شرکت کی۔ بعد ازاں ان کا جسدِ اطہر پاکستان لایا گیا، جہاں حسینیہ شریف، کہوٹہ روڈ (راولپنڈی) میں ان کی نمازِ جنازہ ادا ہوئی مختلف خانقاہوں اور درگاہوں کے سجادہ نشین، علماء، مشائخ، اور تمام مکاتبِ فکر کے نمائندگان سمیت ہزاروں شاگردوں نے شرکت کی جو ان کی روحانی مقبولیت اور اتحادِ امت کے جذبے کا مظہر تھا ڈاکٹر پیر سید عبدالقادر شاہ جیلانیؒ کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ علم، روحانیت اور خدمتِ خلق کو یکجا کرنا ہی حقیقی دین داری ہے۔
انہوں نے ثابت کیا کہ تصوف محض ماضی کی روایت نہیں بلکہ حال اور مستقبل کی روشنی ہے آج جب دنیا مادیت کی دوڑ میں روحانیت کو بھول رہی ہے، ڈاکٹر پیر سید عبدالقادر شاہ جیلانیؒ کا پیغام ہمیں یاد دلاتا ہے کہ علم وہ چراغ ہے جو خدمت سے جلتا ہے، اور خدمت وہ عبادت ہے جو محبت سے جنم لیتی ہے ان کی فکر، کردار اور تعلیمات آنے والی نسلوں کے لیے ایک مشعلِ راہ ہیں ان کا مشن علم، عشق اور عمل ہمیشہ زندہ رہے گا۔