بیول کی رہائشی لڑکی کی پراسرار موت

عورت جیسے ہمیشہ سے عزت وآبرو اور متاع حیات نہ صرف سمجھا جاتا رہا بلکہ اس کی خاطر زمانے اور ذات میں کئی انقلاب بھی برپا ہوئے لیکن افسوس کہ ہر دور میں عورت کا استحصال بھی اسی طرح جاری رہا اور ہمیشہ بے بسی طاقت ور طبقے کی بے حسی کے آگے ہارتی رہی عورت کو کہیں عزت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے تو کہیں بظاہر معاشرے کے معزز لیکن حقیقتاً غلیظ کردار اپنی سرداری‘اپنی چوہدراہٹ اور اپنے وڈیرے پن کی طاقت سے اسے سنگ چٹی کے نام پربطور جرمانہ استعمال کرتے رہے اور آج بھی یہ ہورہا ہے کیونکہ قانون تو اندھا ہوتا ہے۔لیکن ہمارے یہاں تو قانون کے رکھوالے بھی اندھے ہیں۔فی زمانہ انسانسوں نے انسانیت کی طرف سے آنکھیں پھیر لیں ہیں محبت ہماری بستیوں میں نایاب ہوچکی ہے ہرطرف نفرت کا دور دورہ ہے۔اس کا ثمر یہ ہے کہ زندگی حرام ہوچکی ہے۔غرض مند میڈیا نے جہل کے حوصلے بڑھائے اس کا فیضان یہ کہ لوگ بدی کے نئے نئے گُر سیکھ گئے۔زہر ہے کہ پھیل رہا ہے۔نفرتیں ہیں کہ بڑھ رہی ہیں عقل دیوانی ہوچکی۔دماغ ماوف اور دانشں بے دانشی کے چبوترے پر بیٹھی ہے سمجھ لیا جائے کہ ہم تاریخ کے جس دور سے گذر رہے ہیں وہ تاریخ کا تاریک ترین دور ہے ہمارا سماج ایسے زخموں سے چور چور جس سے ہروقت خون رستا رہتا ہے ہم کھلی فضاوں میں خواہش کے باوجود آزادی وترتازگی سے کوسوں دورکھڑے حسرتوں سے دیکھتے ہیں انسان کو اشرف المخلوقات اس کے اوصاف اخلاق وکردار وعقل و شعور کی بنا پر ٹھہرایا گیا ہے مگر اس نے خود کو طاقت کے زور پر کمزرور کے مقابلے میں برتر سمجھ لیا ہے۔ گزشتہ دنوں بیول سے رپورٹ ہونے والے ایک دلخراش واقعہ نے ہماری سماجی بے حسی کو واضع کیا ہے میڈیا رپورٹ کے مطابق گھر سے بازار کے نکلنے والی بیول نئی آبادی کی رہائشی 28 سالہ بچی اسماء کے غائب ہونے پر بچی کے خاوند کے ثالث کی جانب سے پولیس کو گمشدگی بارے اطلاع دی گئی پولیس اور اہل خانہ نے تلاش کا سلسلہ جاری رکھا لیکن دوسرے روز اہل خانہ کو فون پر اطلاع ملی کہ بچی بے نظیر اسپتال راولپنڈی میں موجود ہے۔بچی کے بھائی کے میڈیا کو دئیے گئے انٹرویو میں بتایا گیا کہ فون آنے پر پنٍڈی میں موجود دوسرا بھائی فوری طور اسپتال پہنچ گیا اسپتال پہنچنے والے بھائی کے مطابق بچی اس وقت تک زندہ تھی اسپتال میں موجود دیگر افراد کا کہنا تھا کہ بچی از خود اسپتال پہنچی اس کے منہ سے جھاگ نکل رہا تھا اور وہ پیٹ میں شدید ددر کا اظہار کررہی تھی۔
وارڈ میں موجود افراد کے کہنے کے باوجود مبینہ طور پر اسپتال انتظامیہ نے بچی کو یہ کہتے ہوئے طبی امداد کی فراہمی سے انکار کردیا کہ جب تک بچی کا کوئی وارث نہیں آتا ٹریٹمنٹ نہیں کی سکتی نتیجتاً بچی جان ہار گئی۔بچی بیول سے راولپنڈی کیسے پہنچی؟ وہ از خود اسپتال پہنچی یا کوئی اسپتال تک چھوڑ کرگیا۔بچی کے منہ جھاگ کا نکلنا اور پیٹ میں شدید درد کا اظہار کس جانب اشارہ کرتا ہے۔یہ وہ سوال ہیں جن کے جواب تحقیقات اور پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد ہی سامنے آئیں گے تاہم اسپتال انتظامیہ کی جانب سے فوری طبی امداد نہ دیا جانا باعث مذمت عمل ہے موت تو ہر انسان کو آنا ہے اور یہ قانون قدرت ہے لیکن مسیحائی کے دعوے داروں نے اس کیس میں دنیاوی قوانین کو زندگی سے زیادہ اہمیت دی اگر اسپتال انتظامیہ بروقت طبی امداد کی فراہمی کو ممکن بناتی تو شاید بچی کو بچایا جاسکتا تھا۔ بچی کے لواحقین کے مطابق اسپتال انتظامیہ کی جانب سے ڈیٹھ سرٹیفیکٹ میں ظاہر کیا گیا کہ بچی کو مردہ حالت میں اسپتال لایا گیا جس پر لواحقین اور موقع کے گواہان نے ہنگامہ برپا کیا جس پر شاید دوسرا سرٹیفکیٹ جاری کیا گیا اس جعل سازی کی کوشش کے پس منظر دیکھا جائے تو اسپتال انتظامیہ نیاپنی کوتاہی اور نااہلی کو چھپانا کی کوشش کی دوسری جانب پولیس نے بغیر کسی تحقیقات کے بچی کی موت وجہ ڈینگی کو قرار دے دیا جس کی لواحقین کی جانب سے تردید کی گئی بچی کو ڈینگی نہیں تھا۔واقعہ اپنے اندر بہت پراسراریت لیے ہوئے ہے۔پولیس نے اگر خلوص نیت سے تفتیش کی تو واقعہ کے تمام خفیہ پہلو عوام کے سامنے آسکتے ہیں۔