نعرے، وعدے اور عوامی جذبات کی تجارت ۔جب سیاست منافع کا کھیل بن جائے اور عوام صرف ایندھن رہ جائیں

ڈاکٹر عاطف افتخار کھٹانہ

پاکستان کی تاریخ میں ایک کردار ایسا ہے جو ہر دور میں نیا چہرہ، نیا لباس اور نیا خواب دیکھتا ہے — مگر اس کا انجام ہمیشہ ایک سا ہوتا ہے۔
یہ کردار ہے عام آدمی کا، جو ہر نئے وعدے، ہر نئے نعرے اور ہر نئے بیانیے کے ساتھ ایک بار پھر دھوکے میں آ جاتا ہے۔
وہ اپنے خواب، امیدیں، حتیٰ کہ اپنی زندگی تک قربان کر دیتا ہے، مگر انجام میں اسے ہمیشہ وہی مایوسی، وہی استحصال، اور وہی فریب ملتا ہے۔

یہ عام آدمی جذبات کا قیدی ہے۔ اس کے پاس جذبہ بہت ہے مگر شعور کم۔
وہ نعرہ سن کر جوش میں آ جاتا ہے، ہجوم دیکھ کر خود کو طاقتور محسوس کرتا ہے، مگر سمجھ نہیں پاتا کہ یہ ہجوم دراصل کسی کے مفادات کا ایندھن ہے۔
یہی وہ المیہ ہے جو ہماری اجتماعی سوچ کو تباہ کر چکا ہے — ہم سمجھتے نہیں، صرف محسوس کرتے ہیں۔

ہماری سیاست دانوں اور مذہبی رہنماؤں نے اس کمزوری کو پہچان لیا ہے۔
انہوں نے جان لیا ہے کہ اگر عوام کو بار بار امید دلائی جائے، مایوسی میں جوش پیدا کیا جائے، تو وہ سوچنے کی زحمت نہیں کریں گے۔
اسی لیے ہر چند سال بعد ایک نیا نعرہ، نیا وعدہ، نیا چہرہ سامنے آتا ہے، اور عوام ایک بار پھر پرانے زخموں پر نیا مرہم تلاش کرنے نکل پڑتے ہیں۔

ہمیں یاد ہے کہ پچھلے پندرہ برسوں میں “کنٹینر سیاست” نے کس طرح سڑکوں کو میدانِ جنگ بنا دیا۔
لیکن کسی نے یہ نہیں سوچا کہ ان کنٹینرز پر موجود رہنماؤں کے پاس وہ سب کچھ موجود ہوتا ہے جو عام آدمی کے خواب میں بھی نہیں۔
ایئر کنڈیشنڈ کیبن، نرم بستر، کھانے پینے کا انتظام، اور سیکورٹی کا حصار —
جبکہ وہی عوام جو ان کے لیے نعرے لگا رہے ہوتے ہیں، دھوپ میں جلتے ہیں، لاٹھیاں کھاتے ہیں، گولیاں سہتے ہیں اور کبھی کبھی اپنی جان تک دے دیتے ہیں۔

کیا کبھی کسی نے سوچا کہ ایک مزدور جو صبح سے شام تک دیہاڑی کرتا ہے، اگر کسی جلوس یا احتجاج میں مارا جائے تو اس کے گھر چولہا کیسے جلے گا؟
کیا کسی جماعت نے کبھی اس کے بچوں کا سوچا؟
جو سیاست عوام کے لہو سے پھلتی پھولتی ہو، وہ دراصل تجارت ہے — جذبات کی تجارت۔

پاکستان میں یہ روایت پختہ ہو چکی ہے کہ عام آدمی کی لاشیں گرتی ہیں، خون بہتا ہے، اور اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے لوگ خواب خرگوش کے مزے لیتے ہیں۔
کل کے دشمن آج کے اتحادی بن جاتے ہیں، کل کے مخالف آج ایک میز پر بیٹھے مسکرا رہے ہوتے ہیں،
مگر عوام آج بھی تقسیم ہیں — زبان، علاقے، مذہب اور سیاسی وابستگیوں کے نام پر۔

یہ المیہ صرف سیاست کا نہیں، ہماری اجتماعی نفسیات کا ہے۔
ہم نے شعور کو نعروں کے شور میں دفن کر دیا ہے۔
ہم نے اپنی عقل کو دوسروں کے ہاتھ گروی رکھ دیا ہے۔
ہماری نسلوں کو بتایا گیا ہے کہ بس کسی کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ، سوال مت پوچھو۔
یہی سوچ ہمیں ہجوم بناتی ہے، قوم نہیں۔

سوال یہ ہے کہ جب ہمارے ملک میں مزدور کی روزی ایک دن کی محنت پر منحصر ہے،
تو وہ کیوں اپنی محنت، اپنا وقت، اپنا خون ان کے لیے قربان کر دیتا ہے جن کے پاس طاقت، دولت اور عیش و آرام کی کوئی کمی نہیں؟
کیوں عوام بار بار ان لیڈروں کے پیچھے چل پڑتے ہیں جو اقتدار کے ایوانوں میں ایک دوسرے کو گالیاں دینے کے بعد
کسی محفل یا مجلس میں ہنستے مسکراتے مصافحہ کرتے نظر آتے ہیں؟

یہ حقیقت ہے کہ سیاست دانوں کے درمیان ذاتی دشمنی کبھی نہیں ہوتی۔
ان کے مفادات مشترک ہیں، ان کی دوستی دیرپا ہے، ان کے بچوں کی تعلیم ایک ہی ملک میں، ان کے کاروبار ایک ہی دائرے میں،
اور ان کے اختلافات محض عوامی تماشے کا حصہ ہیں۔
لیکن عوام؟
وہی عوام ایک دوسرے کے خلاف نفرت میں جل رہے ہوتے ہیں،
ایک دوسرے کی خوشیوں اور غموں میں شریک ہونا چھوڑ دیتے ہیں،
حتیٰ کہ کسی کے ووٹ یا سیاسی پسند کی بنیاد پر رشتہ داریاں ختم کر لیتے ہیں۔

اب وقت ہے کہ عام آدمی سوچے کہ آخر اس کے جذبات کب تک بیچے جائیں گے؟
کب تک اس کے جوش کا فائدہ اٹھایا جائے گا؟
کب تک وہ اپنے قاتلوں کے نعروں پر تالیاں بجائے گا؟

پاکستان کے عوام کو یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ یہاں حکومتیں ووٹ سے نہیں بلکہ مفاد کے توازن سے بنتی اور ٹوٹتی ہیں۔
فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں، اور ان کے نتائج عوام بھگتتے ہیں۔
اگر نواز شریف، عمران خان یا آصف زرداری جیسے بڑے رہنما طاقت کے مراکز کے سامنے بے بس ہیں،
تو عام آدمی کس جنگ کی تیاری میں ہے؟
کس دیوار سے سر ٹکرا رہا ہے؟

کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنے ہی ملک کے اداروں پر حملہ کرے،
یا اپنے کارکنوں کو ریاست کے خلاف کھڑا کرے۔
یہ ملک ہمارا ہے، ہماری پولیس اور ادارے ہمارے اپنے ہیں،
اور اگر وہ کسی کے ذاتی یا بیرونی ایجنڈے کا حصہ بنیں تو نقصان صرف عوام کا ہو گا۔

اب عوام کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ اس کھیل کا حصہ بنے رہنا چاہتے ہیں یا اس سے الگ ہو کر اپنی عزتِ نفس بچانا چاہتے ہیں۔
ان لیڈروں کے پیچھے چلنے کے بجائے اپنے لیے سوچنا ہو گا۔
اپنی رائے بنانی ہو گی، اپنے فیصلے کرنے ہوں گے۔
کیونکہ جب تک عوام جذبات میں بہتے رہیں گے، وہی جذبات ان کے خلاف استعمال ہوتے رہیں گے۔

وقت آ گیا ہے کہ عوام عقل کے ساتھ فیصلہ کریں، نہ کہ جذبات کے ساتھ۔
انھیں سمجھنا ہو گا کہ ان کی طاقت صرف نعرے لگانے میں نہیں، بلکہ سوال اٹھانے میں ہے۔
اگر وہ سوال پوچھنے لگیں،
اگر وہ وعدوں کا حساب مانگنے لگیں،
تو شاید یہ “جذبات کی تجارت” ختم ہو جائے۔

خدا کرے کہ پاکستان میں وہ وقت واپس آ جائے جب عزت کا معیار دولت نہیں بلکہ علم، دیانت اور انسان دوستی ہوا کرتا تھا۔
جب لوگوں کو ان کے شعور سے پہچانا جاتا تھا، جذبات سے نہیں۔
تب شاید یہ ملک ایک حقیقی قوم بن جائے — ایسی قوم جو اب کسی کے نعرے، وعدے یا جذبات کے کاروبار کا حصہ نہ بنے