احتجاج اور دھرنوں کی سیاست ہم کس طرف جارہے ہیں

گزشتہ چند برسوں میں ہمارے ملک میں احتجاج، دھرنے، اور سڑکوں کی بندش معمول بنتی جا رہی ہے۔ ہر طبقہ، ہر جماعت، اور ہر گروہ اپنے مطالبات کے حق میں سڑکوں پر آتا ہے، لیکن ان احتجاجوں کا اثر صرف حکمرانوں تک محدود نہیں رہتا بلکہ عام شہری اس کا سب سے زیادہ خمیازہ بھگتتے ہیں۔ تعلیم، کاروبار، صحت، اور عام زندگی کا پہیہ رک جاتا ہے، جس سے پہلے سے ہی کمزور معیشت مزید دباؤ کا شکار ہو جاتی ہے۔ہم وہ قوم ہیں

جنہیں شائید دشمن کی ضرورت ہی نہین ہے اپنے پاوں پر کلہاڑی مارنا کوئی ہم سے سیکھے دھرنوں کے دوران انٹرنیٹ بند کیا جاتا ہے تو نقصان صرف تفریح یا سوشل میڈیا تک محدود نہیں رہتا بلکہ آن لائن کاروبار، تعلیمی سرگرمیاں، اور ڈیجیٹل لین دین سب متاثر ہوتے ہیں۔ ایک ایسے دور میں جب دنیا تیزی سے ڈیجیٹل معیشت کی طرف بڑھ رہی ہے، ہم الٹا راستہ اختیار کر رہے ہیں۔ انٹرنیٹ بند کرنا وقتی امن تو دے سکتا ہے، لیکن طویل المدت نقصان ناقابلِ تلافی ہوتا ہے۔

دوسری طرف، سڑکوں کی بندش سے عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ ایمبولینسیں مریضوں سمیت پھنس جاتی ہیں اور بعد ازاں مریض جان کی بازی ہار جاتء ہیں ملازمین دفتر نہیں پہنچ پاتے، طلبہ امتحانات سے رہ جاتے ہیں، اور روزانہ مزدوری کرنے والے افراد کا چولہا ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ ان حالات میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے احتجاج کا طریقہ کار درست ہے؟ کیا اپنے حقوق کے حصول کے لیے دوسروں کے حقوق پامال کرنا جائز ہے؟

یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ جب حکومت حالات کو قابو میں رکھنے کے نام پر پورے ملک کا نظام معطل کر دیتی ہے، تو اس کا نقصان بھی عوام کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ احتجاج کے لیے مخصوص مقامات مقرر کرے، جہاں عوام اور سیاسی یا مذہبی جماعتیں اپنے مطالبات پرامن طریقے سے پیش کر سکیں، بغیر اس کے کہ سڑکیں بند ہوں یا روزمرہ زندگی متاثر ہو۔ اسی طرح انٹرنیٹ یا ذرائع مواصلات کو بند کرنے کے بجائے سیکیورٹی کے جدید اور ہدفی طریقے استعمال کیے جائیں تاکہ عام شہریوں کی زندگی اور معاشی سرگرمیاں متاثر نہ ہوں۔

یہ سچ ہے کہ جمہوریت میں احتجاج ہر شہری کا حق ہے، مگر یہ حق اس وقت اپنی قدر کھو دیتا ہے جب یہ معاشرتی نقصان کا باعث بن جائے۔ ہمیں اجتماعی طور پر یہ سوچنا ہوگا کہ اپنے مطالبات کو مؤثر مگر پرامن انداز میں کیسے پیش کیا جائے تاکہ نظام بھی چلے اور عوام کی زندگی بھی متاثر نہ ہو۔

ہم جس سمت جا رہے ہیں وہ انتشار، بے یقینی، اور معاشی تباہی کی طرف ہے۔ اگر ہم نے جلد اپنے احتجاجی رویوں کو مثبت اور تعمیری شکل نہ دی، تو آنے والے وقت میں نہ صرف معیشت بلکہ معاشرتی ہم آہنگی بھی شدید خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ حکومت اور عوام دونوں کو اپنی ذمہ داری سمجھنی ہوگی — عوام احتجاج میں نظم پیدا کریں، اور حکومت شہریوں کی زندگی کو محفوظ اور آسان بنائے۔ یہی رویہ ہمیں ترقی اور استحکام کی سمت لے جا سکتا ہے اب اگر کرین پارٹی کااحتجاج تھا تو حکومت

کو چاہیے تھا انکو ٹیبل پر لاتے ابھی احتجاج شروع بھی نہیں ہوا تھا تو پولیس اور انتطامیہ نے گھروں میں گھس گھس کر کارروائیاں کرنا شروع کردی جو سراسر غلط ہیں اگر ہم ملل سے مخلص ہیں تو پالیساں بدلنا ہونگی بصورت دیگر ہمیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں ہم اپنے اب سے بڑے دشمن ہین