راجہ طاہر محمود
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ بڑی بڑی تہذیبیں دریاؤں کے کنارے آباد ہوئیں۔ دریائے نیل، دریائے دجلہ و فرات، دریائے ہوانگ ہو، دریائے ٹیمز، دریائے ہڈسن اور دریائے سین (Seine) جیسے بڑے دریاؤں نے شہروں کو زندگی بخشی اور تہذیبوں کو جِلا دی۔ لیکن ان دریاؤں کے بپھرنے سے بھی ہمیشہ خطرہ لاحق رہا۔ فرق یہ ہے کہ زندہ قومیں ان خطرات کو مستقل بنیادوں پر قابو پانے کے لیے عملی اقدامات کرتی ہیں، جبکہ ہم محض وقتی بندوبست کر کے اپنی ذمہ داری پوری سمجھ لیتے ہیں۔
کبھی کسی نے یہ خبر نہیں سنی کہ لندن کے باسیوں کو دریائے ٹیمز کے طغیانی کی وجہ سے کہا گیا ہو کہ آپ اپنے گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہو جائیں۔ کبھی نیویارک والوں کو دریائے ہڈسن کے کنارے سے چوبیس یا اڑتالیس گھنٹے کا الٹی میٹم نہیں دیا گیا کہ شہر خالی کریں۔ پیرس کے شہریوں کو بھی کبھی دریائے سین کی طغیانی کے سبب بڑے پیمانے پر انخلا نہیں کرنا پڑا۔ حتیٰ کہ ایمسٹرڈیم، جو کہ سطح سمندر سے نیچے واقع ہے اور جہاں سینکڑوں نہریں بہتی ہیں، وہاں بھی آج تک کسی حکومت نے یہ نہیں کہا کہ عوام اپنا شہر چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں۔ وجہ یہ ہے کہ ان ممالک نے وقت پر سوچا، منصوبہ بندی کی، اپنے وسائل کو صحیح جگہ لگایا اور عوام کو ایک محفوظ نظام دیا۔اس کے برعکس پاکستان میں صورتحال ہر سال وہی پرانی کہانی دہراتی ہے۔
دریائے سندھ، جہلم، چناب، راوی، کے کناروں پر آباد لاکھوں لوگ ہر سال انتظامیہ کے اس اعلان کے منتظر رہتے ہیں کہ“اپنے گھر چھوڑ دیں، محفوظ مقامات پر منتقل ہو جائیں۔”یہ دراصل انتظامی نالائقی کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ترقی یافتہ ممالک اپنے وسیع تر دریاؤں کو قابو میں رکھ سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں کر سکتے؟ کیا ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے؟ یا پھر نیت اور دیانت کا فقدان ہے؟حقیقت یہ ہے کہ جب بھی ہم بند اور حفاظتی پشتے بناتے ہیں، ان کے ساتھ کرپشن کا ایسا جال بچھا دیا جاتا ہے کہ منصوبے کاغذی طور پر تو بڑے مضبوط نظر آتے ہیں مگر حقیقت میں سیلابی پانی کا دباؤ برداشت نہیں کر پاتے۔ جنوبی پنجاب، بالخصوص ملتان مظفر گڑھ، لیہ،کے علاقے ہر سال سیلابی پانی کی زد میں آتے ہیں۔
اسی طرح پنجاب کے وسطی اور شمالی حصے، جیسے گجرات، گجرانوالہ، سیالکوٹ اور لاہور بھی خطرات سے دوچار رہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہم اربوں روپے کے فنڈز لگا کر بھی اپنے شہروں کو محفوظ نہیں بنا پا رہے تو پھر یہ پیسہ کہاں جا رہا ہے؟ایک اور تشویشناک پہلو یہ ہے کہ بعض اوقات خود انتظامیہ ہی دباؤ کم کرنے کے لیے بند توڑ دیتی ہے، جس سے چھوٹے چھوٹے قصبے اور گاؤں پانی کی نذر ہو جاتے ہیں۔ یہ عمل نہ صرف غیر منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے بلکہ اس سے عوام کے دلوں میں حکومتی اداروں کے خلاف شدید غم و غصہ بھی جنم لیتا ہے۔سیلاب کے دوران بیوروکریسی اور حکومتی اہلکاروں کا رویہ بھی کسی تماشے سے کم نہیں۔ بجائے اس کے کہ عوام کی عملی مدد کی جائے، کئی افسران اپنی پروجیکشن کے لیے سوشل میڈیا پر نت نئی ویڈیوز اپ لوڈ کرتے ہیں، لائیو سٹریمز کرتے ہیں اور فالوورز بڑھانے میں مصروف نظر آتے ہیں۔
یہ رویہ عوامی خدمت نہیں بلکہ محض ذاتی تشہیر کا کھیل ہے۔ عوام کے دکھ اور تکلیف کو پسِ پشت ڈال کر اپنی سیاسی و سماجی برانڈنگ کرنا بدترین ناانصافی ہے۔اگر یہی صورتحال جاری رہی تو ہر سال ایک نیا ایپیسوڈ سامنے آئے گا۔ کبھی دریائے سندھ کا پانی شہروں کو بہا لے جائے گا، کبھی چناب اور جہلم کے بند ٹوٹ جائیں گے، اور کبھی جنوبی پنجاب کے قصبے اور دیہات زیرِ آب آ جائیں گے۔ یہ ایک
نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو ہماری غفلت اور بدانتظامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت اور ریاستی ادارے اپنی آنکھیں کھولیں۔ صرف وقتی اقدامات اور ہنگامی انخلاء کے اعلانات کافی نہیں۔ ہمیں ایک لانگ ٹرم پالیسی کی ضرورت ہے۔ ایسی پالیسی جس میں دریاؤں کے بہاؤ کو جدید ٹیکنالوجی سے مانیٹر کیا جائے، بندوں اور پشتوں کو بین الاقوامی معیار کے مطابق تعمیر کیا جائے، اور سیلابی پانی کو ضائع کرنے کے بجائے ذخیرہ کرنے کے منصوبے شروع کیے جائیں۔
اگر ہم ان پانیوں کو ڈیموں، ریزروائرز اور چھوٹے بڑے تالابوں میں محفوظ کر لیں تو یہ پانی زراعت کے لیے نعمت ثابت ہو سکتا ہے۔سیلابی پانی کو کنٹرول کرنے سے نہ صرف ہر سال آنے والی تباہی سے بچا جا سکتا ہے بلکہ اس پانی کو توانائی کے حصول اور زرعی مقاصد کے لیے استعمال کر کے ملکی معیشت کو بھی مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔ یہی وہ حل ہے جو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے اپنایا اور آج وہ اپنے عوام کو محفوظ ماحول دینے میں کامیاب ہیں۔حکومتِ پاکستان کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ وہ محض وقتی اعلانات کے بجائے ایک جامع اور پائیدار حکمتِ عملی اپنائے۔ وگرنہ آنے والے سالوں میں تاریخ یہی لکھے گی کہ جب دنیا نے اپنے دریاؤں کو اپنی طاقت بنایا، ہم نے اپنی نالائقی اور کرپشن سے انہیں اپنی بربادی کا ذریعہ بنا لیا۔