محکمہ جنگلات کرپشن کا ایک منظم ادارہ بن گیا؟

تحریر: شہزاد حسین بھٹی
پنجاب فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ برسوں سے میرٹ شکنی، اقربا پروری اور بدانتظامی کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ دعوے بڑے بڑے کیے جاتے ہیں، شفافیت کے نعرے لگتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ محکمے کے اندر میرٹ نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔ ترقیوں اور تعیناتیوں کے فیصلے قابلیت یا سینیارٹی کی بنیاد پر نہیں بلکہ سفارش، تعلق داری اور ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سینیئر اور تجربہ کار افسران کو او ایس ڈی بنا کر گوشہ گمنامی میں دھکیل دیا جاتا ہے جبکہ جونیئر افسران بڑے بڑے عہدوں پر تعینات ہو جاتے ہیں۔محمد سعید تبسم جیسے سینئر ترین افسر کو دس ماہ تک او ایس ڈی رکھا گیا، ثاقب محمود آج بھی اسی حیثیت میں ہیں، مگر چھٹے نمبر پر موجود عابد حسین عابد، ساتویں نمبر پر محمد نواز سندھیلا اور گیارویں نمبر پر افتخار الحسن فاروقی چیف کنزرویٹر تعینات کر دیے گئے۔ کیا یہ میرٹ کی توہین نہیں؟ کیا یہ سینئر افسران کی عزتِ نفس کے قتل کے مترادف نہیں؟لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اس سب کا نقصان کون بھگت رہا ہے؟ نہ افسران کا، نہ حکومت کا، بلکہ پنجاب کے وہ جنگلات جو ہماری آنے والی نسلوں کے لیے امانت ہیں۔ چھانگہ مانگہ جنگل اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ کبھی دنیا کا سب سے بڑا مصنوعی جنگل کہلانے والا یہ سرمایہ آج کرپشن، لوٹ مار اور افسر شاہی کی غفلت کی نذر ہو چکا ہے۔ 2012 میں اس کا 75 فیصد حصہ اجاڑ دیا گیا، اربوں روپے کا نقصان ہوا، 27 افسران کے خلاف مقدمات بھی درج ہوئے مگر طاقتور لابیوں نے سب کچھ دبا دیا۔ 2014 میں بھی یہی کھیل دہرایا گیا۔جنگل کو بچانے کے نام پر مزاحیہ منصوبے بنائے گئے۔ کبھی آہنی جالی کی دیوار، جو چند دنوں میں غائب ہو گئی اور اس کا لوہا نیلامی کی بھینٹ چڑھ گیا۔ کبھی اینٹوں اور سیمنٹ کی دیوار جس میں تعمیر کے دوران ہی دراڑیں پڑ گئیں۔ کوئی انکوائری نہیں، کوئی جوابدہی نہیں۔ ایسے لگتا ہے جیسے محکمہ جنگلات نہیں بلکہ کرپشن کا ایک منظم ادارہ قائم ہو گیا ہے جہاں ہر اہلکار اپنا حصہ وصول کرتا ہے۔مزید ظلم یہ کہ حالیہ دنوں میں بلاک آفیسرز کو نظر انداز کر کے جونیئر فاریسٹ گارڈز کو ان کی جگہ تعینات کر دیا گیا۔ ڈی ایف او چھانگہ مانگہ آغا حسین کی من مانیوں نے قواعد و ضوابط کی دھجیاں اڑا دیں۔ متعدد بلاک آفیسرز نے احتجاج کیا، درخواستیں دیں، مگر ان کی آوازیں طاقتور افسر شاہی کی دیواروں سے ٹکرا کر واپس لوٹ آئیں۔یہ پہلی بار نہیں ہو رہا۔ شہباز شریف کے دورِ وزارتِ اعلیٰ میں بھی چھانگہ مانگہ میں کرپشن پر کارروائی ہوئی، مقدمات درج ہوئے، انسپیکشن ٹیم اور اینٹی کرپشن سرگرم ہوئے، مگر افسوس کہ مافیا کی جڑیں اتنی مضبوط نکلیں کہ چند دن کا شور شرابہ تھم گیا اور سب کچھ وہیں کا وہیں رہ گیا۔جنگلات کی تباہی صرف درختوں کی کٹائی تک محدود نہیں۔ یہ ماحولیاتی بربادی ہے۔ یہ ہمارے مستقبل پر کاری ضرب ہے۔ درخت کٹیں گے تو بارشیں کم ہوں گی، زیرِ زمین پانی مزید نیچے چلا جائے گا، زمین بنجر ہو گی اور سیلابوں کی شدت بڑھے گی۔ درخت صرف لکڑی کے ڈھیر نہیں بلکہ آکسیجن کے کارخانے ہیں، فضائی آلودگی کے فلٹر ہیں، اور زمین کی زرخیزی کے ضامن ہیں۔ جب ہم اپنے ہاتھوں سے یہ سب کچھ کاٹ دیں گے تو پھر ہمیں موسمیاتی تبدیلی، خشک سالی اور تباہ کن بارشوں کا سامنا کرنا ہی پڑے گا۔یہ محض محکمہ جنگلات کی اندرونی سیاست نہیں بلکہ ایک قومی المیہ ہے۔ پنجاب حکومت اگر واقعی میرٹ اور شفافیت کی دعوے دار ہے تو اسے چاہیے کہ گزشتہ دس سالوں کے تمام افسران کی تعیناتیوں اور کارکردگی کا حساب لے۔ ہر وہ افسر جو بار بار من پسند اضلاع میں تعینات
ہوا، ہر وہ افسر جس کے دور میں جنگلات اجڑے، اور ہر وہ افسر جس پر کرپشن کی شکایات ہیں، ان سب کی جامع تحقیقات کی جائیں۔اگر یہ سب نہ کیا گیا تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ وہ پوچھیں گی کہ جب آپ کے پاس چھانگہ مانگہ جیسا اثاثہ تھا تو آپ نے اسے کیوں برباد ہونے دیا؟ کیوں آپ نے جنگلات کو بچانے کی بجائے لوٹنے والوں کے ساتھ خاموش تماشائی کا کردار ادا کیا؟وقت کم ہے، خطرہ بڑا ہے۔ اگر آج بھی ہم نے اپنی آنکھیں بند رکھیں تو آنے والے برسوں میں پنجاب کے جنگلات صرف کتابوں میں پڑھنے کو ملیں گے اور ہماری سانسیں صرف آلودگی اور زہریلے دھوئیں سے بھری ہوں گی۔ حکومت کو خوابِ غفلت سے جاگنا ہو گا، ورنہ یہ جرم ہمارے اجتماعی ضمیر پر ہمیشہ کے لیے ثبت ہو جائے گا۔