تحریر :محمد حسیب چوہدری
قدرتی آفات کا کوئی بھی مقابلہ نہیں کر سکتا لیکن انسان، قوم اور ملک کے پاس ہمیشہ یہ موقع موجود ہوتا ہے کہ بہتر سے بہتر اسباب اختیار کریں۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ ”انسان پہلے اپنے اسباب اختیار کرے اور پھر اللہ پر بھروسہ اور توکل کرے۔“ یہی اصول زندگی کے ہر شعبے میں کامیابی کی ضمانت ہے۔حالیہ دنوں میں پاکستان ایک بار پھر سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا کر رہا ہے۔ ہزاروں خاندان متاثر ہیں، بستیاں ڈوب گئی ہیں اور لوگ بے گھر ہو گئے ہیں۔ ایسے میں ہمیں ماضی کی قربانیوں کو بھی یاد کرنا چاہیے۔ ہم میرپور کے لوگ منگلا ڈیم کے کنارے پر واقع ہیں اور بخوبی جانتے ہیں کہ اس ڈیم کی تعمیر کے لیے ہمارے آباو اجداد نے کس طرح اپنے گھر بار چھوڑے، اپنے پیاروں کی قبروں پر ڈیم بنانے کی اجازت دی اور قومی مفاد کی خاطر سب کچھ قربان کر دیا۔
یہی قربانی کا سلسلہ اس وقت بھی دہرایا گیا جب منگلا ڈیم کی اپ ریزنگ ہوئی۔ مقامی لوگوں نے کروڑوں روپے مالیت کی زمینیں کوڑیوں کے بھاو حکومت کو پیش کر دیں۔ مجھ سمیت نوے کی دہائی میں پیدا ہونے والی نسل بھی اس بات کی عینی شاہد ہے کہ کس طرح ہماری جائیدادیں سستے داموں حکومتی معاوضے کے تحت خریدی گئیں۔اپ ریزنگ کے دروان متاثرین کی آباد کاری کے لیے جس جگہ کا انتخاب کیا گیا وہ انتہائی ناقص ثابت ہوئی ہے نیو سٹی میرپور کے نام سے بننے والا شہر آئے روز لینڈ سلائیڈنگ کی زد میں ہوتا ہے متاثرین منگلا ڈیم کی کروڑوں کی تعمیرات زمین بوس ہو رہی ہیں۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ ریزنگ کو بھی بیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن لینڈ سلائیڈنگ کے آفٹر شاک ابھی بھی آ رہے ہیں اور متاثرین کے ساتھ ذیلی کنبہ کی آباد کاری کا معاملہ بھی ایک افسانہ بن چکا ہے۔پاکستان میں اگر دریاوں پر بروقت مزید ڈیم تعمیر کیے جاتے تو آج یہ سیلاب کسی حد تک روکے جا سکتے تھے۔ افسوس کہ 1960 کی دہائی کے بعد صرف دو بڑے ڈیم منگلا اور تربیلا بنائے گئے۔ کالا باغ ڈیم اور دیگر منصوبے پہلے مقامی سیاست اور بعد ازاں صوبائی سیاست کی نذر ہو گئے۔ اپنی انا پرستی اور بغض کی وجہ سے کالا باغ ڈیم کا آغاز ہی نہ ہوسکا۔ اُس وقت اس کی لاگت چند ارب روپے تھی جبکہ آج محتاط اندازے کے مطابق یہ پینتالیس سو سے پانچ ہزار ارب روپے تک پہنچ چکی ہے، جو موجودہ معاشی حالات میں تقریباً ناممکن دکھائی دیتی ہے۔
اسی طرح دیامر بھاشا ڈیم، داسو ڈیم، مہمند ڈیم، نئی گج ڈیم، ناولونگ ڈیم اور بھمبر ڈیم جیسے منصوبے کاغذوں میں یا سست روی کا شکار ہیں۔ ان منصوبوں کے لیے سابق وزیرِاعظم عمران خان اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی طرف سے فنڈنگ کا اعلان بھی ہوا لیکن آج تک ان رقوم کے استعمال کی کوئی شفاف خبر سامنے نہیں آئی۔ حقیقت یہ ہے کہ بروقت فیصلے ہی ملک اور قوموں کو بچاتے ہیں، ورنہ تاخیر تباہی کا پیش خیمہ بنتی ہے۔بدقسمتی سے آج حالات یہ ہیں کہ صرف اشرافیہ کی زمینیں بچانے کے لیے بند توڑے جا رہے ہیں اور غریب بستیاں پانی میں ڈبوئی جا رہی ہیں۔ دوسری طرف ہمارا پڑوسی ملک بھارت سینکڑوں چھوٹے بڑے ڈیم بنا چکا ہے اور جب چاہتا ہے پاکستان کی طرف پانی چھوڑ دیتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ہمارے ہاں لوگ دریاوں کے کنارے غیر منصوبہ بندی کے تحت آبادیاں بساتے رہے اور اب دریاوں نے قبضہ مافیا سے سود سمیت زمینیں واپس لے لی ہیں۔ یہ بھی مکافاتِ عمل ہے۔سیلاب آتا ہے تو سب سے زیادہ نقصان غریب
عوام کو ہوتا ہے۔ ان حالات میں سیلاب زدگان کی مدد کرنا نہ صرف انسانی ہمدردی بلکہ دینی اور قومی فریضہ بھی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ:مستند فلاحی تنظیموں اور حکومتی فنڈز میں عطیات دیں‘خشک راشن، خیمے، ترپال، کمبل اور بستر فراہم کریں‘پناہ گاہیں اور ریلیف کیمپ قائم کرنے میں مدد دیں‘فرسٹ ایڈ کٹس، ادویات، مچھر دانیاں اور طبی سہولتیں پہنچائیں‘رضاکارانہ طور پر ریلیف ٹیموں کے ساتھ شامل ہوں‘بچوں، خواتین اور بزرگوں کی خصوصی دیکھ بھال کریں‘اور سب سے بڑھ کر، متاثرین کو یہ احساس دلائیں کہ وہ اکیلے نہیں ہیں۔قرآن کریم میں ارشاد ہے: جو شخص کسی ایک جان کو بچائے گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔ (المائدہ: 32)
آج ہمیں اجتماعی طور پر یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے پانی، توانائی اور سیلاب سے تحفظ کے منصوبوں پر سنجیدگی سے کام کریں۔ ورنہ ہر سال یہ منظرنامے دہراتے رہیں گے اور ہم صرف افسوس کرتے رہیں گے۔
