عدنان نصیر
شہید جسم سلامت اٹھائے جاتے ہیںاقبال نے کہا تھا:
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندہِ صحرائی یا مردِ کہستانی
فطرت کے مقاصد تو خدا جانے کیا ہیں لیکن صحراوں اور کہستانوں کے پروردہ مرد، جرت اور ہمت کا استعارہ ہیں۔اگر دریا زندگی ہیں تو پہاڑ انسانی قوم و قبائل کے ازلی دفاع کار ہیں۔یہ کچھ عجیب نہیں کہ پہاڑوں کی چٹانون اور کہستانوں کے دامنوں میں جنم لینے والے مرد بھی پہاڑوں سی فطرت رکھتے ہوں۔خطہِ پوٹھوہار میں شاید ہی کوئی ایسا گاوں ہو جس کا حوالہ دفاعِ وطن میں جان قربان کرنے والا کوئی شہید نہ ہو۔کہوٹہ کی سرزمین اس حوالے سے کچھ زیادہ ہی زرخیز رہی ہے۔اس سرزمین نے جوہری تجربہ گاہ کے لیے جہاں اپنا سینہ پیش کیا وہیں اپنی کوکھ سے جنمے راج دلارے بھی نذرِ وطن کیے۔اولین جوہری تجربہ گاہ کے سبب کہوٹہ دفاعِ پاکستان کا سب سے بڑا حوالہ ہے۔اٹھائیس مئی انیس سو اٹھانوے کے جوہری تجربوں کے باعث اسلامی دنیا کی پہلی جوہری طاقت بننے سے لے کر دس مئی دو ہزار پچیس میں الفتح میزائل داغ کر معرکہِ حق سرانجام دینے تک کہوٹہ سرِ فہرست ہے۔یہ خطہِ زمیں صرف بتھیار ہی نہیں بلکہ انھیں چلانے والے ہاتھ اور جذبہِ ایمانی سے سرشار سینے بھی مہیا کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس کا قریہ قریہ شہیدوں کے لہو کی خوشبو سے معطر ہے اور گوشہ گوشہ نورِ ایمانی سے روشن ہے۔دو ستمبر دو ہزار پچیس دن سوا دو بجے کہوٹہ شہر کے مضافات میں موجود گاوں لونا سیداں کی جنازہ گاہ میں شہید حوالدار جہانگیر اختر کا جسدِ خاکی لایا گیا تو فضا میں آواز بلند ہوئی:
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
لونا سیداں کی جنازہ گاہ کی یہ فضا آج مختلف ہے۔مِیلوں تک راستے شفاف ہیں، کھیت راتوں رات صاف کر دیے گئے ہیں۔رحمتوں کے بادل منڈلا رہے ہیں۔تا حدِ نگاہ سروں کا ہجوم ہے، مکمل سنّاٹا ہے، جنازہ گاہ کے اطراف فوجی پہرہ ہے، فضا رشک آور ہے، اکلوتی دھیمی شفاف آواز کی تاثیر آنکھوں میں چمک اور دل میں حرارت پیدا کر رہی ہے۔ایک جنگی پڑاو کے دوران نبیِ محترم نے فرمایا:
کون ہے وہ جو آج رات ہماری پہرے داری پہ مامور ہو گا؟
جنابِ انس نے کہا: حضور مجھے شرف عطا کیجیے.سالار مع سپاہ آرام فرمانے لگے،فجر کا وقت ہوا،نماز ادا کر لی تو دیکھا انس گھوڑے کی پیٹھ پہ ہنوز پہرے داری پہ ہیں حضور نے فرمایا: انس رات بھر گھوڑے کی پیٹھ سے اترے بھی ہو؟ میرے آقا یہ کیسے ممکن ہے؟حضورِ دوعالم نے فرمایا:انس تجھے جنت کی بشارت ہو”سبحان اللہ
سبز ہلالی پرچم میں لپٹا تابوت فوجی اعزازت کے ساتھ لحد میں اتارا جا رہا ہے،فوج کے حکامِ بالا، سپاہی، چاق و چوبند دستے اور عوامِ علاقہ
صف بہ صف کھڑے ہیں، فوجی وردی میں ملبوس چست جوان اپنی توانا آواز میں شہید کا تعارف اور فوجی خدمات پڑھ کے سنا رہا ہے اور یکم ستمبر کی صبح دورانِ ڈیوٹی گلگت میں آرمی کا طیارہ گرنے کے باعث اپنے چار ساتھیوں سمیت خالقِ حقیقی سے جا ملا اناللہ وانا الیہ راجعون
بندوقوں کے منہ آسمان کی طرف ہیں، فضا میں سلامی کی گونج سنائی دیتی ہے، قبر پہ پھول چڑھائے جاتے ہیں اور میری نظر شہید حوالدار جہانگیر کے ننھے پھول پہ پڑتی ہے جو اپنے تایا کے کندھے سے لگا یہ سب حیرانی سے دیکھ رہا ہے۔لمحے میں میرا وجود بھاری ہو گیا، رشک کے جذبات کوسوں دور ہو گئے، دل سلگنے لگا، آنکھیں نم ہو گئیں، شہید کے تین کمسن معصوم بچوں کے عکس آنکھوں میں دھندلانے لگے، کالج میں میری ہم کار شہید کی بیوہ کا خیال آیا، شہید کے بھائیوں کو نحیف و نڈھال دیکھا تو میں سوچنے لگا کہ آخر وہ کیا ہے جو دنیا کو امن اور محبت کے اصولوں پہ چلنے نہیں دیتا؟ دو پڑوسی اخوت و بھائی چارے کی ترسیل کی بجائے ایک دوسرے کے خلاف لاو لشکر کی تشکیل کیوں کر رہے ہیں؟میں گیا رشک سے لوٹا اذیت کے زیرِ اثر، تمام پُرسہ ہر حرفِ تسلی ماند پڑ گیا۔بس دعا ہے کہ خدا شہید کے شہیدوں میں درجات بلند کرے، لواحقین کو جلد، گہرا اور دیرپا صبر عطا کرے اور انسان کو انسانیت، ہمدردی، محبت اور امن کے سائے میں دنیا آباد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔امین یارب العالمین
