گزشتہ روڈ اڈیالہ جیل کے قریب عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان پر انڈا پھینکنے کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، جو ہمارے ملک میں پیش آیا ہو، اس سے قبل بھی اس قسم کے کئی ایک واقعات پیش آ چکے ہیں کہ ایک جماعت کے سیاسی کارکن دوسری جماعت کے رہنماؤں پر جوتے، انڈے برساتے رہتے ہیں یا ان کے ساتھ نازیبا حرکات اور نامناسب رویہ اپناتے ہیں۔ ان سب واقعات اور سانحات کے پیچھے سیاسی رہنماؤں کا ہی ہاتھ ہوتا ہے وہی اپنے کارکنوں کو اس بات پر ابھارتے ہیں اور انہیں ترغیب دیتے ہیں کہ دوسری جماعتوں کے رہنماؤں کی تذلیل کریں جب خود اپنے اوپر وہی بات آتی ہے تو پھر اس پر چیخنا چلانا شروع کر دیتے ہیں، پھر جب دوسروں کو آپ اس بات پر مجبور کریں گے تو آپ کے اندر خود بھی اس بات کو برداشت کرنے کی ہمت ہونی چاہیے۔
خواجہ آصف پر سیاہی پھینکنے کا واقعہ، مریم اورنگزیب کو لندن میں ہراساں کرنے کا واقعہ، مریم نواز کو ایک بزرگ کی طرف سے گالی دینے کا واقعہ اور اس پر دوسری جماعت کے رہنماؤں کی خوشی، پھر ان سب سے بڑھ کر تحریک انصاف کے کارکنان کی طرف سے مسجد نبوی شریف میں مسلم لیگ نون کے رہنماؤں پر آوازیں کسنا اور مسجد نبوی میں کی توہین کرنا۔ ان سب واقعات کے پیچھے مخالف جماعتوں کے رہنماؤں کا بھرپور ہاتھ ہے۔ مجھے یاد ہے جب مسجد نبوی کی توہین کا واقعہ پیش آیا تھا اس سے چند روز قبل شیخ رشید اس وقت جن کا پڑاؤ پی ٹی آئی میں تھا، نے لاہور مینار پاکستان کے جلسے میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ لوگ حرم میں بھی جاکر دیکھ لیں لوگ ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔میں نے اس وقت ہی اپنے کالم میں اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ یہ پاکستان اور لندن میں اپنے کارکنوں کو دوسری جماعتوں کے رہنماؤں پر حملے کرنے پر اکسانے کے بعد اب حرم شریف اور مسجد نبوی میں بھی اس بات پر اکسا رہے ہیں اور خدشہ ہے کہ ان کے کچھ سر پھرے کارکن حرم یا مسجد نبوی شریف میں اس قسم کا کوئی غلط قدم نہ اٹھا لے اور وہ خدشات درست ثابت ہوئے اور مسجد نبوی کی توہین کا واقعہ پیش آیا۔
یہ سب اسی جماعت کا کیا دھرا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ جن خواتین نے علیمہ خان پر انڈا پھینکا ان کا تعلق بھی پی ٹی آئی سے ہی ہے تو یہ وہ نازیباحرکات ہیں جنہیں یہ کبھی شعور کہا کرتے تھے، جب دوسری جماعت کے رہنماؤں کے ساتھ ہو تو تب تو اسے شعور سمجھا جاتا ہے لیکن جب اپنے ساتھ ہو تو چیخنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس قسم کی حرکات کا ٹرینڈ بھی اسی سیاسی جماعت نے چلایا اور اپنے کارکنوں کو بارہا اکساتے رہے کہ دوسری جماعتوں کے رہنما جہاں بھی ملیں ان کا پیچھا کیا جائے اور ان کی تذلیل اور توہین کی جائے اور ان کے کارکنوں نے اس پر پوری طرح عمل کیا اور کئی بار اس قسم کی حرکات میں ملوث ہوئے جس پر یہ لوگ خوشی کا اظہار کرتے رہے اور شادیانے بجاتے رہے۔
تو جب آپ دوسروں کے ساتھ ایسا کریں گے تو اپ کے ساتھ تو ضرور ہوگا ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہے۔ قران کریم میں اللہ کریم رب العزت فرماتے ہیں کہ تم دوسروں کے جھوٹے خداؤں کو گالی مت دو، وہ جہالت میں اللہ کو گالی دیں گے (الانعام 108)۔ اسی طرح حدیث شریف میں ہے کہ یقینا سب سے بڑے گناہوں میں سے یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے والدین پر لعنت بھیجے۔ پوچھا گیا: یارسول اللہ ﷺ کوئی شخص اپنے ہی والدین پر کیسے لعنت بھیجے گا؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ وہ شخص دوسرے کے باپ کو برا بھلا کہے گا تو دوسرا بھی اس کے بات کو اور اس کی ماں کو برا بھلا کہے گا، (صحیح بخاری)۔ یہ بات یہاں پر بتانے کا مقصد یہ ہے کہ جب آپ کسی کو برا بھلا کہیں گے یا کسی کو کچھ کہیں گے تو واپسی پہ رد عمل کے طور پہ آپ کو بھی اس کا سامنا کرنا پڑے گا اسی قسم کا جواب آپ کو بھی ملے گا تو اس لیے اگر آپ خود اس چیز کو برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے تو اپنے کارکنوں کو دوسروں کی توہین یا تذلیل سے بھی باز رکھیں۔
بہرحال کوئی بھی جماعت ہو یا کوئی بھی رہنما ہو انہیں اس چیز پر اپنے کارکنوں کو کبھی بھی اکسانا نہیں چاہیے کہ وہ دوسرے رہنماؤں پر اس قسم کے جسمانی حملے کریں یا ان کی توہین و تذلیل کریں۔ آپ کے پاس سیاسی راستہ ہے آپ اس کو اپنائیں اس کے مطابق آپ ان کی مخالفت بھی کریں ان پر تنقید بھی کریں لیکن اس قسم کی بھونڈی حرکات تو کسی بھی طرح سے برداشت نہیں کی جا سکتیں۔ اگر اس چیز سے بچنا چاہتے ہیں توتمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو اپنے کارکنوں کو اس سے باز رکھنا چاہیے اور اگر کوئی اس قسم کی حرکت کر لے تو تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو یک زبان ہو کر اس کی مذمت کرنی چاہیے، چاہے وہ ان کا اپنا کارکن ہی کیوں نہ ہوں۔ تب یہ چیز رک سکتی ہے اگر اسی طرح چلتا رہے گا تو پھر اس قسم کے واقعات بڑھتے رہیں گے اور پھر تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما اس کا نشانہ بنیں گے۔
ضیاء الرحمن ضیاءؔ