اُردو ادب میں کچھ شاعرات ایسی بھی ہیں جو اپنی فصاحت،اعلیٰ ذوق اور گہرائی کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھی جاتی ہیں۔ رخسانہ سحرانہی ممتاز شاعرات میں سے ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی کو شعری خدمات میں وقف کیا۔ انہوں نے نعت، منقبت، غزلیں اور نظمیں کہنے میں مہارت حاصل کی اور ہر شعر میں عشقِ رسول ﷺ اور انسانی جذبات کی لطافت کو بہترین انداز میں پیش کیا ہے۔ ان کی نعت و منقبت میں اخلاص، ادب، مَحبّت اور عقیدت کی مٹھاس نمایاں ہے، جو قاری کے دل میں روحانی سکون قائم کرتی ہے۔ ان کی غزلیں انسانی جذبات، احساسات اور مشاہدات کی ترجمان ہیں، جو ہر قاری کو سوچنے اور محسوس کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ 192 صفحات پر مشتمل اس مجموعہ میں فرحت عبّاس شاہ، قیوم طاہر، مِس عظمیٰ بشیر اور عبدالقادر تاباں جیسے ادب شناسوں کے مضامین ہیں جو شاعرہ کی شہرت اور ادبی مقام کی غمّازی کرتے ہیں اور شاعرہ کے اعلیٰ شعری اظہار کو نمایاں کرتے ہیں – جبکہ پیش لفظ خود رخسانہ سحر نے لکھا ہے –
ان کا ہر لفظ مَحبّت اور شعور کی روشنی میں ڈوبا ہوا ہے۔ یہ شاعرہ نہ صرف ادب کی خدمت کرتی ہیں بلکہ نئی نسل کے لیے بھی ایک مشعلِ راہ ہیں، جو عشقِ رسول ﷺ، مَحبّت اور ادبی ذوق کی رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ ان کا کلام قاری کے دل و دماغ پر دیرپا اثر چھوڑتا اور روح کو تازگی بخشتا ہے۔
اس مجموعہ پر گفتگو کے آغاز سے قبل، پیش لفظ کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں، جو موضوع کے بنیادی نکات اور خدوخال کی جھلک پیش کرتا ہے۔ یہ چند سطور قاری کو آگاہی اور فکر کی دعوت دیتی ہیں، اور مضمون کی سمت کا ابتدائی خاکہ مہیا کرتی ہیں
” زندگی سے کبھی کوئی شکوہ نہیں رہا – مُجھے رب تعالیٰ نے ماں باپ کے بعد اگر روحانی ماں باپ یعنی اساتذ? دیے تو ایسے مشفق کہ مَیں اپنی قسمت پر ناز کیے بناء نہیں رہ سکتی – دوست ملے تو ایسے جنھوں نے لمحہ بہ لمحہ میری رہنمائی فرمائی – مجھے زندگی نے ہمیشہ اچھّے لوگوں سے ملوایا – جب مُجھے اتنی مَحبّتیں میسر ہوں تو بھلا مَیں لفظِ مَحبّت کے معنیٰ سے کیسے نا آشنا رہ سکتی ہو ”
(ص 19، کتاب ہذا)
اس میں کوئی شک نہیں زندگی کے ہر لمحے میں خوشیاں اور آزمائشیں موجود ہیں، مگر جو شخص اللہ کی طرف سے اپنی عطا کردہ نعمتوں کو پہچانتا ہے، وہ ہر حال میں مطمئن رہتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے رخسانہ سحر کو سب سے پہلے ماں باپ کی مَحبّتوں سے نوازا، جو دلوں کے سب سے قیمتی خزانوں میں سے ہیں۔ان کی شَفَقَت، قربانی اور رہنمائی نے رخسانہ سحر کو صبر، استقامت اور نیکی کی روشنی دکھائی۔ماں باپ کے بعد اللہ تعالیٰ نے شاعرہ کو روحانی ماں باپ یعنی مشفق اور ہمدرد اساتذہ عطا کیے، جنہوں نے ہر لمحہ شاعرہ کی رہنمائی کی۔ دوستی بھی زندگی کو خوشیوں اور سکون سے بھر دیتی ہے، اور ایسے دوست ملنا جو دل سے چاہیں اور بے لوث مَحبّتیں لٹائیں، سب سے بڑی نعمت ہے۔ یہ تعلقات انسان کو مَحبّت کے حقیقی مفہوم سے روشناس کراتے ہیں اور دل میں ہمدردی اور سکون پیدا کرتے ہیں۔ جب انسان کو اتنی مَحبّتیں اور اچھّے لوگ میسر ہوں، تو وہ شکر گزاری اور قدر دانی سیکھتا ہے۔ مَحبّت صرف لفظ نہیں، بلکہ ایک جذبہ، ایک احساس اور دلوں کوجوڑنے والی قوّت ہے۔ یہ احساس انسان کے دل میں سکون، حوصلہ اور اُمیّد کی روشنی بکھیرتا ہے۔ شکرگزاری اور مثبت تعلقات انسان کی سب سے بڑی دولت ہیں اور زندگی کوبامعنی بناتے ہیں۔ جو شخص اپنی زندگی کی نعمتوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے، وہ ہر حال میں خوش اورمطمئن رہتا ہے۔یہی زندگی کا سب سے قیمتی سبق ہے، اور یہی وہ خزانہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔ مَحبّت اور شکرگزاری کے رنگ میں رنگی ہوئی زندگی ہی حقیقی سکون اور خوشی عطا کرتی ہے۔ان نعمتوں کی قدر کرنا اور مَحبّت بانٹنا، انسان کو اعلیٰ اخلاق اور نیک کردار کی طرف لے جاتا ہے۔زندگی کی سچّائی یہی ہے کہ مَحبّت اور شکرگزاری کے بغیر کوئی انسان حقیقی خوشی نہیں پا سکتا۔
رخسانہ سحر کا نعت سے منقبت تک عقیدت و صداقت کا سفر
نعتیہ اشعار:
وَرَق پر نامِ احمد جگمگاتا ہے، مہکتا ہے
مَیں ان کی نعت لکھتی ہوں قلم ہے ضوفشاں میرا
زندگی سیرت النبی سی ہو
رنگ رکھے یہ داستاں اپنا
منقبت:
ہمارے پاس نبی کی گواہی ہے لیکن
یزیدیوں کی کہیں بھی سند نہیں کوئی
نعت اور منقبت ہماری دینی و ادبی روایت کے دو ایسے سرچشمے ہیں جو روح کو تازگی اور دل کو تسکین عطا کرتے ہیں۔ نعت میں شاعرہ نے حضور اکرم ﷺ کے ذکر کو اس خوبی سے برتا ہے کہ لفظ جگمگا اٹھتے ہیں اور قلم نور کی کرنوں میں ڈھل جاتا ہے۔ یہ نعت گوئی محض شاعری نہیں بلکہ عقیدت و عشق کا وہ اظہار ہے جو ہر دل کو روشنی عطا کرتا ہے۔ اسی طرح منقبت میں شاعرہ نے حق و باطل کے فرق کو اجاگر کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ نبی ﷺ اور اہلِ بیتؑ کی گواہی حق کی سند ہے جبکہ یزیدیت کے پاس تاریخ میں کوئی مقام نہیں۔ نعت اور منقبت کا یہ امتزاج دراصل عقیدت اور صداقت کی آمیزش ہے جو ہماری دینی فکر کا جوہر ہے۔ اس طرح شاعرہ کے اشعار صرف فن نہیں بلکہ ایمان اور کردار کے بھی آئینہ دار ہیں –
رخسانہ سحر کے مجموعہء کلام ” مَیں اور تم” کی سُخن کی وادی سے کچھ غزلوں کے منتخب مطلعے ملاحظہ فرمائیں جو میرے ذوق و جمال کی عکاسی کرتے ہیں –
کیسے تنہا رہ سکتے ہیں مَیں اور تم
یعنی جسم و جاں جیسے ہیں مَیں اور تم
دُکھ نہ ہو جس کے ٹوٹ جانے پر
خاک ہے ایسے دوستانے پر
سُخنوری کے لبادے میں سچ بتاتے ہوئے
مَیں رو رہی ہوں کسی کو غزل سناتے ہوئے
ترے لیے ہی تو آئی ہوں مَیں زمانے میں
جگہ بنا مرے کردار کی فسانے میں
رنجش کے باوجود کنارا نہیں ہُوا
یعنی بچھڑنا خود سے گوارا نہیں ہُوا
دل و دماغ پہ طاری ہیں بس وہی باتیں
بچھڑتے وقت جو کیں تونے آخری باتیں
سُخن وری کے خداؤں سے دشمنی کر لی
دیا جلا کے ہواؤں سے دشمنی کر لی
مَیں سمجھتا ہوں کہ ادب کی معنوی وسعت اور فکری جہات کو سمجھنے کے لیے محض ایک ہی زاویے پر انحصار کافی نہیں ہوتا، بلکہ مختلف اصحابِ فکر و فن کی آراء اور تجرِبات سے استفادہ لازم قرار پاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ زیرِ نظر مضمون میں فرحت عبّاس شاہ، قیوم طاہر، مِس عظمیٰ بشیر اور عبدالقادر تاباں کے منتخب اقتباسات پیش کیے جا رہے ہیں۔ ان اقتباسات کے ذریعے نہ صرف موضوع کے فکری اور تہذیبی پہلوؤں کو اجاگر کیا جائے گا بلکہ اس کی معنوی عَظَمَت اور ادبی وقار بھی قاری کے سامنے نمایاں ہوگا۔
'' رخسانہ سحر خاتون شعراء میں ایک نمایاں نام ہے اور یہ نام انھوں نے شعر و ادب کے ساتھ ایک طویل وابستگی، ایک مضبوط کمٹمنٹ سے بنایا ہے - سچّے شعر کے لیے دل کا سچّا ہونا پہلی شرط ہے - اور اس شرط پر اب کم کم کوئی پورا اترتا ہے - رخسانہ سحر کے شعروں کا پہلا تاثر ہی یہ ہے کہ وہ ایک سچّے دل کی خالص آپ بیتی سے تشکیل پاتے ہیں - یہی وجہ ہے کہ ان کی غزلوں یا نظموں میں بناوٹ نام کی کسی چیز کا شبہ تک نہیں ''
(ص 11، کتاب ہذا، فرحت عبّاس شاہ)
'' ان کی شاعری قارئین کو زندگی، روحانیت اور انسانی وجود کے بنیادی سوالات پر غور و فکر کرنے کی ترغیب بھی دیتی ہے - فکری گہرائی اور جذباتی گونج ان کی تمام غزلوں میں دکھائی دیتی ہے - ان کا شاعرانہ اظہار نہ صرف ان کے اپنے تجرِبات کا عکّاس ہے بلکہ اس میں عمل کی دعوت بھی موجود ہے ''
(ص 14،. کتاب ہذا، قیوم طاہر)
'' آج ہم رخسانہ سحر کو مشہور و معرف شاعرہ، مُصنّفہ رخسانہ سحر کے نام سے جانتے ہیں جس نے نہ صرف اپنے ماں باپ بلکہ ہم اساتذہ کا سر بھی فخر سے بلند کر دیا ہے - مُجھے یاد ہے ضلعی سطح پر کوئی بھی نصابی، غیر نصابی سرگرمی ہوتی، رخسانہ فرسٹ یا سیکنڈ پوزیشن لاتی اور اپنے سکول کا نام بھی اسی طرح روشن کرتی تھی - میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے کامیابیوں اور کامرانیوں سے ہمیشہ نوازتا رہے - زندگی کی ہر نعمت سے مالا مال فرمائے - اس کی شاعری اور کلام مزید نکھار اور عروج پائے - خدا تعالیٰ اس کا حامی و ناصر ہو ''
(ص 16، کتاب ہذا، مِس عظمیٰ بشیر)
ہمارے عہد میں چرخِ سُخن پر شاعرات کی جو ایک دلفریب دھنک موجود ہے اس میں ایک خوبصورت اور توانا آواز کا نام '' رخسانہ سحر'' ہے رخسانہ سحر سے میری شناسائی تقریباً بارہ برس کے عرصے پر محیط ہے - وہ ایک وضع دار اور پُر وقار شخصیت کی مالک شاعرہ ہیں اور کسی حد تک ان شاعرات کے قبیل سے تعلق رکھتی ہیں جو شعر کو اپنا مسئلہ سمجھتی ہیں - ان کی شاعری میں جگہ جگہ متنوع اور جدید خیالات کا اظہار ملتا ہے
(ص 17، کتاب ہذا، عبدالقادر تاباں)
رخسانہ سحر کے مجموعہء کلام میں منظومات کا باب دل کی دھڑکنوں اور روح کی سرگوشیوں کا شعری منظرنامہ پیش کرتا ہے ذیل میں عنوانات پیش کیے جا رہے ہیں تاکہ قاری لطف اندوز ہو سکے -
(پیاری دوست رباب ثاقب کے نام، پیارے شہر ساہیوال کے نام، عورتوں کے عالمی دن پر، مُجھے واپس بلاتا ہے، 12 جولائی اپنے جنم دن پر، آہ معصوم فرشتہ، ترکِ تعلق، وہ کہتا ہے، بدن کی سیڑھی، مُجھے رونا نہیں آتا، پارلر والی، مرحومہ فرزانہ کے نام، عورت، عیدِ سعید، فرمائش، مَحبّت، تغیر، ذوالجناح)
یہ منظومات جذبات کے ان چراغوں کی مانند ہیں جو کبھی روشنی میں ڈبو دیتے ہیں اور کبھی دھندلے سائے میں لے جاتے ہیں۔ ان میں مَحبّت کی نرمی ہے، جدائی کا زہر ہے، وقت کی صدا ہے اور عقیدت کا نور ہے۔ رخسانہ سحر نے لفظوں کو اس طرح برتا ہے کہ وہ دھڑکن بن کر سانسوں میں اترتے ہیں اور قاری کو اپنی روح کی گہرائیوں میں جھانکنے پر مجبور کرتے ہیں۔ یوں یہ باب صرف نظموں کا گلدستہ نہیں بلکہ احساسات کا ایک ایسا کارواں ہے جو دل پر نقوش چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے یاد رہ جاتا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ اُردو زبان کی شیرینی اور اس کے بیان کی نزاکت کا ایک حسین اظہار ہمیں اس کتاب کے آخری باب '' مفردات'' کے باب میں ملتا ہے۔ اس باب میں شامل منتخب اشعار نہ صرف لفظ کے جوہر کو اجاگر کرتے ہیں بلکہ خیال کی لطافت اور معنی کی وسعت کو بھی نمایاں کرتے ہیں۔ ان اشعار کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاعرہ نے مفردات کو محض لغوی معنوں تک محدود نہیں رکھا بلکہ ان میں جذبات، احساسات اور فکری گہرائی بھی سمو دی ہے۔ ذیل میں اسی باب سے چند منتخب اشعار قارئین کی خدمت میں پیش کیے جاتے ہیں تاکہ رخسانہ سحر کی زبان و بیان کی خوبصورتی اور فنِ سُخن کی چمک کا بھرپور اندازہ کیا جا سکے-
تجھ سے بچھڑی ہوں تو یوں گھر میں پڑی رہتی ہوں
جیسے بوسیدہ سی دیوار پہ تتلی کوئی
خواب ماضی کا بن گئے حصّہ
ہاتھ آنکھوں پہ رکھ دیے کس نے
اعلیٰ ظرفی کی ہو اُمیّد بھلا کس سے مُجھے
جو بھی ملتا ہے وہ کم ذات نکل آتا ہے
مَیں سوچتی ہوں ہواؤں سے بات ہو جائے
یہ چلتے چلتے چراغوں کو نوچتی کیوں ہیں
وہ جس کے تنے پر لکھا ہے نام تمہارا
مجھ کو ہے بہت پیار اسی کہنہ شجر سے
دعویٰ ہے تجھ کوعشق کا چل مانتی ہوں مَیں
یہ بحرِ بیکراں ہے ذرا ڈوب کر دکھا
اتوار کی چھٹّی پہ کہاں سیر کو جائیں
تونے کبھی پوچھا نہیں رخسانہ سحر سے
آخر میں مجھے بس یہ کہنا ہے رخسانہ سحر کا مجموع کلام '' مَیں اور تم'' اپنی ہمہ جہتی اور تنوع کے اعتبار سے ایک اہم ادبی حوالہ ہے۔ اس میں نعت، منقبت، غزلیات،منظومات،نظمیں اور مفردات کی صورت میں نہ صرف فنّی مہارت جلوہ گر ہے بلکہ فکری بصیرت اور روحانی رفعت بھی قاری کو متاثر کرتی ہے۔ نعت و منقبت میں ان کا لب و لہجہ خالص عقیدت اور روحانی وابستگی کا مظہر ہے جو پڑھنے والے کو روحانی سرشاری عطا کرتا ہے۔ غزلیات میں انسانی احساسات، جذبات کی لطافت اور عشق و مَحبّت کی ہمہ رنگ کیفیات نہایت خوش اسلوبی سے نمایاں ہوتی ہیں۔ نظمیں زندگی کے تجرِبات کو تخیّل اور فن کے سنگم پر ایک حسین ترتیب میں پیش کرتی ہیں، منظومات ان کے عصری شعور اور سماجی آگہی کا آئینہ ہیں جو نہ صرف تخیل کی تازگی بخشتی ہیں بلکہ قاری کو فکر و نظر کی نئی سمت بھی عطا کرتی ہیں۔ ان کا اسلوب سادہ اور رواں ہونے کے باوجود معنوی گہرائی اور فنی پختگی سے مزّین ہے، جو ان کی شعری شخصیت کی اصل شناخت ہے۔ یوں یہ مجموعہء کلام محض ایک شاعرہ کی انفرادی کاوش نہیں بلکہ اپنے عہد کی فکری، روحانی اور تہذیبی قدروں کا روشن استعارہ ہے۔ اس میں جمالیاتی سرور بھی ہے اور فکری بالیدگی بھی، جو اسے معاصر ادب میں ایک نمایاں اور معتبر مقام عطا کرتی ہے۔
اسلم چشتی پونے (انڈیا)