تحریر چوہدری محمد اشفاق
حدیث شریف میں آتا ہے کہ سب سے افضل عمل حسن خلق ہے اور سب سے بڑی نحوست بدخلقی ہے،حسن خلق اور سخاوت سے ایمان قوت پکڑتا اور بدخلقی اور بخل سے کفر ترقی کرتا ہے۔انسان کا ظاہری لباس کپڑا ہے اور اندرونی لباس حسن اخلاق ہے۔قیامت کے روز حضور ﷺ کے قریب وہ شخص ہوگا جو خوش اخلاق ہوگا اخلاق کے بغیر انسانی زندگی میں ہم آہنگی و یکسوئی اور یک جہتی پیدا نہیں ہوسکتی۔
اخلاق کے بغیر انسانوں کی جماعت انسان نہیں بلکہ حیوانوں کا ریوڑ کہلائے گی۔زندگی کے ہر شعبے کی ترقی میں حسن اخلاق کو بڑا دخل ہے۔اخلاق اور دین اسلام کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے ۔انسان اخلاق کے بغیر جسم بے جان کی مانند ہے۔ایک حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایمان اور اسلام کی تکمیل اخلاق پرموقوف ہے۔دوسری حدیث شریف میں ہے کہ تمام خوبیوں کا دارومدار پاکیزہ اخلاق پر ہے۔نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : میں اخلاق حسنہ کی تکمیل کے لیے مبعوث ہوا ہوں۔رسول کریم ﷺ نے فرمایا قوم کا سردار قوم کا خادم ہوتا ہے تمام مخلوق اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے اور اللہ کے نزدیک محبوب انسان وہ ہے جو اس کی مخلوق کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آئے،اپنے سے بڑوں کی عزت اور چھوٹوں سے شفقت سے پیش آئے۔
حضرت صدیق اکبرؓ اپنے بوڑھے اور نابینا والد کو بیعت کے لیے لائے تو آپ ﷺ نے فرمایا :انہیں آپ نے کیوں تکلیف دی ؟میں خود ان کے پاس چلا آتا۔خالق کی خوشنودی اور مخلوق میں ہردل عزیز شخصیت کا شرف حاصل کرنے کے لیے اخلاق سب سے بڑا سبب اور آسان ذریعہ ہے یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اسلام حضور نبی کریم ﷺاخلاقی تعلیم اور کردار سازی پر بڑا زور دیا ہے ۔جس کے مطالعے کے بعد یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ کہ اسلام کی تمام تر تعلیم کا لب لباب اگر ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو وہ صرف حسن اخلاق ہے ۔رسول کریم ﷺ سے ایک شخص نے تین مرتبہ دریافت کیا تو یہی جواب ملا کہ خوئے بد عبادت کو اس طرح تباہ و برباد کرتی ہے جس طرح سرکہ شہد کو ،جو کوئی خلق خدا سے پیا ر کرے گا اللہ اس سے پیا ر کرے گا ۔انسان فطرتاََ کئی اضداد کا مجموعہ ہے ،یہ نورانی بھی ہے اور ظلماتی بھی ،آسمانی بھی ،ملکوتی بھی،عالم بھی جاہل بھی،نافع بھی تو حریص بھی اور صبور و شکور بھی۔یہ اس کے اختیار میں ہے کہ وہ کس شعبہ زندگی کو اختیار کرتا ہے ۔اسلام میں اچھی صحبت اختیار کرنا جزو ایمان ہے ۔اچھے اور نیک آدمیوں سے ملنا بھی کار ثواب ہے ۔جب ایک شخص کسی نیک انسان سے ملنے کے لیے جاتا ہے تو ایک پکارنے والا پکارتا ہے کہ تو بھی اچھا ہے اور تیرا چلنا بھی مبارک ،تو نے اپنے لیے جنت خرید لی ہے ۔
کہتے ہیں کہ سب سے اچھا دوست وہ ہے جس کے ملنے کے کچھ فائدے حاصل ہوں،مثلاََ اس سے ملیں تو انسان کی دینی معلومات میں اضافہ ہو یا اس کے اخلاق پر اچھا اثر ہوا ور اس کا ایمان تازہ ہوجائے ۔یہ نہیں کہ اس سے ملنے پر دنیوی باتوں کا پتا چلے۔
آج کل ہمارے معاشرے میں اکثر لوگوں کا کاروباری اور سیاسی باتیں کرنے ،فحش گفتگو اور رشتہ داروں کو برابھلا کہنے اور غیر اسلامی رسوم کا اہتمام کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہے ۔معاشرے میں جہاں اور بہت سی خرابیا ں عام ہیں وہاں اس عظیم نعمت کا فقدان بھی روز مرہ کا مشاہدہ ہے ۔آئے دن قتل و غارت گری ،لسانیت و قومیت کی گہماگہمی،ظلم و ستم کی گرم ہوائیں معاشرے کے وہ ناسور ہیں جو بد اخلاقی کے سبب فروغ پارہے ہیں۔یہ سب چیزیں معاشرے کے امن و امان پر ایک طمانچہ ہیں جن کا نشان صدیوں تک نہیں مٹتا۔ اس لیے اچھے اخلاق کا حصول دین و دنیا کی کامیابی کی ضمانت ہے