امریکہ اور پاکستان کے تعلقات ماضی میں سرد جنگ سے شروع ہوئے، جب امریکہ نے پاکستان کو سوویت یونین کے خلاف ایک اہم اتحادی کے طور پر دیکھا۔ اس دوران پاکستان کو 1954 سے 1964 کے دوران تقریباً 2.5 ارب ڈالر کی اقتصادی اور 700 ملین ڈالر کی فوجی امداد حاصل ہوئی۔ جو ایران، عراق، ترکی سمیت دیگر ممالک کے ساتھ CENTO اور SEATO معاہدوں کا حصہ بننے کے عوض دی گئی تھی، یہ پاک امریکہ تعلقات کی ابتداء تھی جو بظاہر خوشگوار تھی۔
ٍتاہم جب 1965 و 1971 کی جنگیں ہوئیں، تو امریکہ نے فوری طور پر فوجی امداد روک دی۔ اس اقدام نے پاکستان میں اس امتحان کا احساس پیدا کیا کہ یہ اتحادی صرف وقتی ضرورت میں کام آتا ہے اور جیسے ہی مفادات ختم ہو جاتے ہیں، امریکہ پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے اس احساس کے باوجود ہمیں احساس نہ ہو سکا کہ ہم کس چکر میں پھنس رہے ہیں یا احساس ہوا بھی تو وقتی فائدے کے لیے اس پر توجہ نہ دی گئی۔
1979 میں جب پاکستان نے ایٹمی پروگرام شروع کیاتو پاکستان کے بڑے اتحادی امریکہ نے ہی پاکستان کی مخالفت کی اور اس کے مقابلے میں بھارت کو ترجیح دی۔ امریکہ نے ایٹمی پروگرام جو کہ پاکستان کی بقا کے لیے نہایت ضروری تھا، کی پاداش میں تمام فوجی امداد روک دی، سوائے انسانی خوراک کی امداد کے۔
لیکن سوویت افواج کے افغانستان میں داخل ہونے کے بعدامریکہ کو ایک بار پھر پاکستان کی ضرورت محسوس ہوئی تو اس نے پاکستان کے ساتھ ایک مرتبہ پھر بہتر تعلقات قائم کر لیے۔ اب ایک مرتبہ پھر امریکہ پاکستان پر انحصار کرنے لگا اور 1980–1990 کے دوران مجموعی طور پر $5–6 ارب ڈالر کی مالی اور فوجی امداد فراہم کی۔ جس میں F16 طیارے، HAWK میزائل، اور مالی رقوم شامل تھیں۔
1990 کی دہائی میں، جب سرد جنگ ختم ہوئی اور پاکستان کے ایٹمی تجربات سامنے آئے، امریکہ نے عادت کے مطابق پھر سے آنکھیں دکھانی شروع کر دیں اور پاکستان کی امداد روک دی۔ 1998 کے بعد مزید پابندیاں عائد کی گئیں،پاکستان کو بڑھتی ہوئی تنہائی کا سامنا کرنا پڑا۔
9/11 کے بعد، امریکہ نے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا بنیادی ساتھی بنایا۔ صدر مشرف نے فوری طور پر امریکہ کے سوال“تم ہمارے ساتھ ہو یا دہشتگردوں کے ساتھ؟”کے جواب میں ہاں کہی۔ اس کے نتیجے میں 2002سے 2013کے دوران تقریباً 26 ارب ڈالر کی اقتصادی اور فوجی امداد ملی، جس نے ایک بار پھر تعلقات کو گہرائی بخشی لیکن جب 2011 میں Osama bin Laden واقعہ پیش آیا، روابط پھر ٹوٹ پھوٹ ہوئے اور امداد تقریباً $800 ملین کی کٹوتی سامنے آئی۔
یہ تاریخی تجربہ واضح کرتا ہے کہ جب بھی امریکہ پاکستان کو ضرورت کی بنیاد پر استعمال کرتا ہے، اس کے بعد وفاداری کی بنیاد پر یا مستقل شراکت نہیں ہوتی۔ امریکی امداد ہمیشہ قانونی شرائط، سیاسی مفادات اور اسٹریٹیجک ضروریات کے تابع رہی جیسے ایٹمی پروگرام یا افغانستان میں کردار۔ ماضی میں بہت سے موقعوں پر پاکستان نے امریکہ کو اپنا مخلصانہ تعاون فراہم کیا مگر جب امریکہ کو فائدہ نہ رہا، تو امداد
معطل کر دی گئی۔

اب ایک بار پھر امریکہ پاکستان پر بہت مہربان نظر آ رہا ہے، بھارت کے مقابلے میں پاکستان کے کافی قریب ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ تو جیسے پاکستان کے ہی گن گا رہے ہیں، یہ سب دیکھ کر دل میں ڈر پیدا ہو رہا ہے کہ نہ جانے پاکستان سے اب کون سی قربانی مانگی جائے گی۔ اس لیے ہمیں امریکہ کی مہربانیاں دیکھ کر زیادہ بغلیں نہیں بجانی چاہئیں بلکہ اسے سنجیدگی سے دیکھنا چاہیے اور اس کی چالوں سے محتاط رہنا چاہیے۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی میں مکمل احتیاط، خودمختاری اور قومی مفادات کی بالادستی کو اہمیت دینی چاہیے۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں محتاط رہنا اور حتمی حدود مقرر کرنا پاکستان کو اس وقت سے بچا سکتا ہے جب پھر وہ امریکہ کے لیے صرف وقتی فائدے کا کام کرنے لگے۔