شمالی علاقہ جات میں سیر کےلیے جانیوالے سیاح شیدید مشکلات میں پھنس گئے بابوسر ٹاپ روڈ پر آسمانی بجلی گرنے سے گلیشیر پھٹ گیا، جس کے نتیجے میں سیلابی ریلے نے سیاحوں کی 8 گاڑیاں بہا دیں۔ واقعے میں 18 افراد جاں بحق ہوئے، 3 کی لاشیں نکال لی گئیں جبکہ 15 کی تلاش جاری ہے۔
میڈیا زرائع کے مطابق گلگت بلتستان کی حکومت نے کہا ہے کہ ضلع دیامر میں شاہراہِ تھک بابوسر میں 200 سے زیادہ سیاحوں کو ریسکیو اہلکاروں اور مقامی لوگوں کی مدد سے ریسکیو کر لیا گیا ہے جبکہ لاپتہ سیاحوں کی تلاش جاری ہے۔
منگل کو ایک بیان میں گلگت بلتستان کی حکومت کے ترجمان فیض اللہ فراق نے کہا ہے کہ 100 سے زائد سیاحوں کو تھک بابوسر کے لوگوں نے اپنے گھروں میں پناہ دی۔
’200 سے زیادہ سیاحوں کو ریسکیو کر کے چلاس پہنچا دیا گیا ہے جہاں سے ان کے اپنے گھروں سے رابطے بحال ہوئے ہیں۔‘
ضلع دیامر میں شدید سیلابی ریلوں کے نتیجے میں سیاحوں کی متعدد گاڑیاں بہہ گئی ہیں، تین سیاحوں کی لاشیں نکال لی گئیں ہیں جبکہ 15 سے زیادہ افراد لاپتہ ہیں۔
ضلع دیامر میں مواصلاتی نظام نہ ہونے کی وجہ سے سیاحوں کو اپنے عزیزوں سے رابطے میں مشکل کا سامنا ہے۔
فیض اللہ فراق کے مطابق چلاس شہر کے تمام ہوٹلز اور گیسٹ ہاؤسز مسافروں اور سیاحوں کے لیے مفت کھول دیے گئے ہیں۔
گذشتہ شب تاریکی کی وجہ سے ریسکیو اہلکاروں کو سرچ آپریشن میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
مقامی میڈیا چلاس کے ڈپٹی کمشنر عطاالرحمان کے حوالے سے رپورٹ کر رہا ہے کہ تقریباً 10 سے 15 کلومیٹر سڑک سیلابی ریلے میں بہہ گئی ہے۔
رات گئے قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے این ڈی ایم اے نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بابو سر ٹاپ میں کلاؤڈ برسٹ، شدید لینڈ سلائیڈنگ اور فلیش فلڈنگ کے باعث متعدد مقامات پر سڑک بند ہے۔
’بابو سر ٹاپ جل سے دیونگ میں کلاؤڈ برسٹ کے وجہ شدید لینڈ سلائیڈنگ و فلیش فلڈنگ سے 14 سے 15 مقامات پر روڈ بلاک ہے۔‘
مقامی انتظامیہ نے سیلابی ریلے میں پھنسے سیاحوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا تاہم، شاہراہ قراقرم لال پہاڑی اور تتھا پانی کے مقامات اب بھی بند ہے۔
این ڈی ایم اے کے مطابق بحالی اور ریسکیو آپریشن کے لیے مقامی انتظامیہ کے ساتھ رابطے میں ہے اور سڑک کی بحالی اور ملبے میں پھنسی گاڑیوں کو نکالنے کا کام جاری ہے۔
تاہم، بھاری ملبے کے باعث کچھ علاقے ناقابل رسائی ہیں۔ این ڈی ایم اے نے سیاحوں کو پہاڑی علاقوں کی جانب سفر سے گریز کرنے کی ہدایت کی ہے اور کہا ہے کہ مقامی انتظامیہ کی ہدایات پر عمل کریں۔
محکمۂ موسمیات نے کہا ہے کہ پاکستان میں مزید سیلاب آنے کا خدشہ ہے کیونکہ بارشوں کا نیا سلسلہ 25 جولائی تک جاری رہنے کا امکان ہے۔
پنجاب میں سب سے زیادہ 135 اموات ہوئی ہیں، اس کے بعد خیبر پختونخوا میں 46، سندھ میں 22، بلوچستان میں 16، اور اسلام آباد اور پاکستان کے زیرِ انتظام آزاد کشمیر میں ایک ایک ہلاکت ہوئی ہے۔ ملک بھر میں جن جگہوں پر سیلابی صورت حال درپیش ہے وہاں مقامی شہریوں اور حکومتی مشنیری سے باہمی ریسکیو آپریشن جاری ہے، عوام کو غیر ضروری سفر سے گریز کی ہدایت کی گئی ہے