جی ٹی روڈ ہائی وے پولیس اور محکمہ شاہرات

(عبدالحنان راجہ)

جی ٹی روڈ پر یا کسی بھی شہری آبادی سے گزرتے ہوئے اچانک سمت مخالف سے کوئی گاڑی، بائیک، ٹریکٹر ٹرالی، سرکاری گاڑی بھی آ جائے یا بڑا سا گڑھا جو گاڑی ہی کیا اپ کو اندر تک ہلا دے تو سب سے پہلے آپ نے گھبرانا نہیں اور فوری طور پر کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے اپنے آپ کو دندناتی گاڑی کی پہنچ سے دور کرنا ہے۔ فریق دوئم کی اس قانون شکنی کو نظر انداز کرنا ہے اور اس دوران شیطان آپ کو بدتہذیبی اور گالم گلوچ کی طرف خوب مائل کرے گا مگر کم از کم اس موقع پر آپ نے اس کی ایک نہیں سننی۔ اور صبر کا دامن نہیں چھوڑنا کہ اتنی فضیلت مقصود نہ ہوتی تو ہائی وے پولیس اور شہری علاقوں میں وراڈنز اتنی سنگین اور جان لیوا قانون شکنی کو روکتے نہ، دراصل قانون شکنی کی یہ کھلی اجازت آپ کے ضبط اور صبر کا امتحان جس میں آپ نے ہر دو صورت کامیاب ہونا ہے کہ ناکامی کی صورت میں گاڑی گیراج جا سکتی ہے اور ۔۔۔۔ اللہ محفوظ رکھے۔
جا بجا ٹریفک قوانین کی بکھرتی دھجیاں اور ادارے کی بے بسی دیکھ کر دوران تحریر ہی ٹریفک پولیس کے ذمہ داران کے لیے قابل عمل تجویز ذہن میں آئی کہ ڈرائیونگ سکولز میں عمومی خلاف ورزیوں بالخصوص سگنلز توڑنے، سمت مخالف (رانگ سائیڈ) سے آنے کا درست طریقہ ، جی ٹی روڈ پر گڑھوں سے بچنے اور دوران سفر گاڑی سے گندگی کے شاہرز باہر پھینکنے کے طریقہ کار بارے آگاہی فراہم کی جائے دی کہ اس سے عوام میں ان حملوں سے اپنے آپ کو محفوظ اور ٹریفک قوانین پر عمل کرنے والوں کی جہالت پر ماتم کا شعور بیدار ہو گا۔
اگر آپ بذریعہ جی ٹی روڈ راولپنڈی لاہور ہی کیا پورے ملک میں کہیں بھی سفر کریں تو ہر چند کلومیٹرز کے بعد دو ادارہ جات کی نیک خواہشات کے پیغامات کے سائن بورڈز ضرور نظر آئیں گے ایک ادارہ ہمہ وقت آپکی خدمت میں کوشاں ہے اور دوسرا آپ کے محفوظ سفر کے لیے دعاگو۔ ہر دو کی نیک خواہشات عملی نہیں تو بذریعہ سائن بورڈ ہی سہی پر ھم دل و جان سے انکے مشکور۔ ویسے ہر دو ادارہ جات نے جی ٹی روڈ پر گاڑی چلانے والوں کو ہمہ وقت مستعد و چست رکھنے کا نظام بھر پور نظام قائم کر رکھا ہے اب یہ ہماری نالائقی کہ ھم اسے منفی انداز میں لیتے ہیں۔ کیا آپ کے ساتھ آپکے اہل خانہ، دوست احباب یا مسافر گاڑیوں کے مسافروں کو بحفاظت منزل تک پہنچانا گاڑی چلانے والوں کی ذمہ داری نہیں۔ ؟

پھر ہائی وے پولیس اور محکمہ شاہرات کو کوسنا بنتا نہیں۔ پھر سوال کہ ہر دو محکمہ جات کے قیام کا مقصد۔ ؟ تو جواب عرض کہ نیک تمنائیں اور محفوظ سفر کے سائن بورڈز ۔
اگر آپ کا دماغ مثبت سوچنے پر رضامند ہو جائے تو سوچیے کہ اگر شاہراہیں اعلی، بغیر گڑھوں اور ان پر کھلی قانون شکنی نہ تو سستی ، کاہلی حتی کہ نیند کا غلبہ یقینی، سو یہ گڑھے، یہ جھٹکے اور سمت مخالف سے گاڑیوں کا آنا جانا اپکو مستعد اور چوکنا رکھنے کے لیے ہی تو پے۔
بعض ناخلف یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ ہر 60 کلومیٹرز کے بعد کروڑوں کی رقم کی وصولی کس مد میں ؟ جواب عرض کہ ٹال ادائیگی دراصل اپکی جان کا صدقہ جو ھم گھر سے نکلتے وقت بھی بھول جاتے ہیں اور منزل پر پہنچنے کے بعد بھلا کس کو یاد رہتا ہے۔ سو سرکار نے آسان آقساط میں اس کی ادائیگی کا اگر بندوبست کر ہی رکھا ہے اس پر چیں بہ جبیں ہونے کی ضرورت نہیں۔!!!۔ بس ادا کرتے رہیے۔
پھر سوال اٹھا کہ ہائی وے پولیس کا ادارہ کس مرض کی دوا۔ بے تکان بولنے کی عادت نے وقفہ نہ لیا اور ایک ہی سانس میں اچھا بھلا بھاشن دے ڈالا کہ مہذب ممالک میں جرنیلی سڑک پر تو کجا سروس لین پر بھی سمت مخالف سے آنے کا تصور ہی نہیں، اشارہ توڑنا تو گویا موت کے فرشتے کو دعوت۔ مگر یہاں تو یہ دونوں کام دیدہ دلیری اور قانون کی نظروں کے سامنے بھی ہوتے ہیں ۔ ظاہر ہے اتنی سنگین خلاف ورزیاں جو براہ راست موت کے مترادف، کے لیے کسی دلیل کی ضمیر نے اجازت تو نہ دی مگر اپنے آپ کو غیر مہذب معاشرے کا سمجھ کر چند جلی کٹی سنا کر اس مہذب انسان کو جی ٹی روڈ کی بجائے موٹر وے پر سفر کی تاکید کر کے جان چھڑائی۔
اب مسئلہ درپیش تھا جی ٹی روڈ کے اطراف شہری آبادیوں میں ٹریفک جام کا ۔ ؟ گو کہ اس میں میونسپل کمیٹیوں اور وارڈن کا بھی تعلق مگر ان سب کی ساکھ بچانا بھی تو ایک پیشہ ور صحافی کی ذمہ داری میں آتا ہے۔ اس کی جاہلیت کے مد نظر بتایا کہ وہاں ٹریفک ازدھام اور ٹریفک جام کا مقصد جی ٹی روڈ پر ان شہروں کا ثقافتی و مطالعاتی جائزہ ہے تا کہ اہل وطن کو اپنے وطن کے شہروں سے آگاہی ہو۔ دوسرا تیز رفتاری ویسے بھی باعث ہلاکت ہوتی ہے اس لیے باوجود کشادہ شاہراہ کے شہری علاقہ جات سے آہستہ گزرنا ہی قانون پسند شہری ہونے کا ثبوت ہے۔
بڑی گاڑیوں کا انتہائی دائیں جانب چلنا بھی یہاں معمول۔ مگر چونکہ بھاری بھرکم وزن سے لدے ٹرک ملک کے طول و عرض میں عوام کو اشیائے ضروریہ پہنچانے کی اہم اور کٹھن ذمہ داری پر مامور ہیں ان کے اس جذبہ خدمت کی قدر کرنے کی بجائے ہمیں ان پر طعنہ زنی سے گریز کرنا چاہیے اور ہائی پولیس بھی شاید ان کے اسی جذبہ خدمت کی وجہ سے انکو عموما نظر انداز کر دیتی ہے۔
اس جواب پر محترم ضمیر باقاعدہ سر پھوڑنے تک آ گیا گو کہ اسے سلانے کی کوشش کی مگر وہ قابو نہ آیا غصہ سے چلاتے چیختے اس ملک میں قانون نام کے کسی وجود کو ہی تسلیم کرنے سے انکاری ہو گیا۔!!!۔ اس کا یہ طعنہ میرے لیے ناقابل برداشت کہ اب کی بار اس نے براہ راست میرے ملک کے 350 سے زائد معزز ممبران قومی اسمبلی اور ایک ہزار سے زائد ممبران صوبائی اسمبلی پھر اس پہ سینٹ آف پاکستان کی اہلیت اور ساکھ پر ہاتھ ڈالا تھا۔!!!۔ اور ساتھ ریاست کے متعدد اداروں پر بھی جو ٹریفک نظام اور شاہرات کے نظام سے منسلک۔ میری برداشت بھی اب لبوں پہ تھی سو معزز اراکین کی قانون سازی کی اہلیت ان کی دیانت و امانت پر جو لیکچر بنتا تھا مجبورا دینا پڑا کہ عشروں سے یہ ہمارے مائی باپ۔ ان کے بغیر بھلا اس مملکت کا نظام کیسے چل سکتا ہے۔ ؟ یہ اسی جمہوریت اور ان منتخب نمائندوں کی مہربانی ہی تو ہے کہ جس نے ہمیں مقروض، مفلوک، ناخواندہ اور پس ماندہ رکھا ہوا ہے وگرنہ اس مٹی اور اس کے جوانوں کو تو اللہ نے بے پناہ وسائل و صلاحیتوں سے نواز رکھا ہے۔ معذرت فرط جذبات میں گستاخ قلم باوجود روکنے کے کسی اور سمت چلا گیا۔
اب آتے ہیں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں کو روکنے اور شاہرات کی ابتر حالت کے سدھارنے پر۔ ہائی وے پولیس کو مفلوک الحال اور مقروض قوم کے زبردستی وصول کیے گئے ٹیکس کے پیسوں سے قیمتی اور بڑی گاڑیاں اے سی لگا کر گھومنے کے لیے تو نہیں دی گئیں اور نہ ہی بھاری بھر کم تنخواہیں اور مراعات لطف اندوز ہونے کے لیے۔ اگر بیٹ آفسران قانون شکنی ( کم از کم سمت مخالف گاڑیوں، اور اشارہ جات توڑنے۔ اوور سپیڈ) روکنے میں ناکام رہتے ہیں تو دو وارننگز کے بعد انکی تنزلی اور پھر بھی اہلیت ثابت کرنے میں ناکامی پر پکی چھٹی۔
محکمہ شاہرات کی اصلاح بھی اسی صورت ممکن کہ 7 یوم سے زائد اگر سڑک پر گڑھے یا خراب حصہ کی مرمت کا سلسلہ نہیں ہوتا تو نیچے سے لیکر اوپر تک جن کی ذمہ داری بنتی ہے بشمول فنڈز جاری کرنے والی اتھارٹی کو پہلی وارننگ کے بعد اگلے مرحلہ میں انکی تنخواہوں میں% 25 کٹوتی، دوسری بار پر %50 اور پھر بھی نہ سدھرنے پر سروس سے برخاستگی۔ کہ انقلابی اور سخت اقدامات کے بغیر محکمے نے سدھرنا ہے اور نہ عوام نے۔
پاکستان پائندہ باد

اپنا تبصرہ بھیجیں