پی پی 7 میں سیاسی ہلچل

سن 2002 کے عام انتخابات سے بالخصوص کہوٹہ،کلرسیداں کی سیاست میں تحصیل کہوٹہ کے گاؤں مٹور کی حیثیت مرکزی و امتیازی رہی ہے۔ 2002 سے تاحال ایک ضمنی سمیت کل 6 بار انتخابات ہوچکے ہیں۔ ان انتخابات میں پانچ بار ایم پی اے کی نشست مٹور والوں نے جیتی۔ راجہ محمد علی (2002 اور2013) دوبار جبکہ بعد ازاں راجہ صغیر احمد مسلسل تین بار ایم پی اے بن کے ”ہیٹ ٹرک“ کرچکے ہیں۔ 2008 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر کرنل شبیر ایم پی اے بنے۔

کرنل شبیر اس جیت کے علاؤہ دو بار پیپلز پارٹی اور دو بار پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ چکے ہیں راجہ صغیر احمد جو اپنے عوامی انداز کیوجہ سے شہرت رکھتے ہیں تین بار ایم پی اے بن چکے ہیں وہ بھی مسلسل یعنی ہیٹ ٹرک کر چکے ہیں۔ 2018 کے انتخابات میں بھی سخت مقابلہ کے بعد جیتے تھے ان کے رنراپ غلام مرتضی ستی تھے۔ 2018 کی جیت پر سوالیہ نشان تھے اور 2024 کے انتخابات کے نتائج پر سوالات اٹھے تھے۔ کیونکہ دوبارہ گنتی میں یہ بات سامنے آئی کہ پی ٹی آئی حمایت یافتہ کرنل شبیر اعوان کے ہزاروں ووٹ مسترد کردئیے گئے کہ ان پر دوہری مہریں لگی تھیں یوں راجہ صغیر فاتح ٹھہرے۔

خیر جیسے بھی ہو اس وقت مسلسل تیسری بار راجہ صغیر پی پی 7 کے ایم پی اے ہیں۔ راجہ صغیر نے گزشتہ ہفتے کلرسیداں کے سینیئر صحافی راجہ سعید کے بھائی کی تعزیت کے موقعہ پر کہا کہ انکے صاحبزادے احمد صغیر راجہ آئندہ انتخابات میں اپنے والد کی سیاست کو آگے بڑھائیں گے۔ احمد صغیر راجہ بار ایٹ لاء ہیں۔ اعلی تعلیم یافتہ ہونے کیساتھ ساتھ خوبصورت گفتگو کا سلیقہ رکھتے ہیں کہ بیرسٹرشپ میں یہ وصف بنیادی طور پر سکھایا جاتا ہے۔ صحافتی و سیاسی کارکن حلقوں کے لیئے یہ اعلان کوئی بڑا سرپرائز نہیں۔

ضمنی انتخابات اور حالیہ عام انتخابات کی انتخابی مہم یا ازاں بعد مختلف مواقع پر احمد صغیر راجہ کے بطور نائب شرکت و کارکردگی یہ اشارے دے رہی تھی کہ جلد یا بدیر احمد صغیر راجہ اپنے والد کے سیاست میں جانشین ہونگے۔ راجہ صغیر احمد اپنے بیٹے کی کامیابی اور مسلم لیگ کی مضبوطی کے لیئے اپنے ان سیاسی مخالفین کو جو نون لیگ چھوڑ چکے تھے ان کو نون لیگ میں واپس لا رہے ہیں۔جن میں راجہ ندیم احمد اور راجہ گلستان واپس شمولیت کا اعلان کرچکے ہیں۔ راجہ صغیر کے اس اعلان پر عوامی سطح پر ملاجلا ردعمل سامنے آ رہا ہے۔

جوان مسلم لیگی کارکن اس اعلان سے خوش نظر نہیں آ رہے۔ کیونکہ موروثی سیاست کے خلاف اب اک بیانیہ کسی حد تک تشکیل پا رہا ہے۔ جبکہ وہ سینیئر مسلم لیگی بھی اپنے پر پرزے نکال رہے ہیں کہ جو وقتی طور اپنا اپنا کیمپ چھوڑ کر راجہ صغیر کیساتھ منسلک تھے۔ یاد رہے کہ راجہ صغیر احمد مسلم لیگ نون سے بغاوت کرکے قومی سیاست میں آئے تھے اور اپنے ہی گاؤں کے راجہ محمد علی کے خلاف انتخابی میدان میں اترے تھے۔ آزاد حیثیت میں جیتنے کے بعد پی ٹی آئی میں چلے گئے اور اقتدار کا حصہ بنے۔ گو کہ پی ٹی آئی حکومت کا حصہ رہے لیکن اب کہہ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت نے اس علاقہ کے لیئے کوئی ترقیاتی کام نہ کروائے۔

راجہ صغیر نے عمران خان کے خلاف مرکز میں عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد ”فلورکراس” کرکے پی ٹی آئی پنجاب حکومت گرانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس پر فلور کراسنگ پر ڈی سیٹ ہوئے۔ اس قربانی کیوجہ سے دو بار مسلم لیگ نے راجہ صغیر احمد کو ٹکٹ جاری کیا جبکہ ماضی میں مسلم لیگ کے ساتھ ہر دور میں کھڑے رہنے والے بزرگ سیاستدان راجہ ظفر الحق نے اس موقعہ پر مسلم لیگی قیادت کے فیصلہ کو تسلیم کیا اور انکے بیٹے نے ضمنی انتخابات اور 2024 کے عام انتخابات میں بھی حصہ نہیں لیا۔ اب اگر راجہ صغیر احمد اپنے بیٹے کے لیئے ٹکٹ مانگتے ہیں تو دوسری طرف راجہ محمد علی بھی ٹکٹ کے لیئے تگڑے امیدوار ہونگے۔ یاد رہے کہ راجہ محمد علی اعلی تعلیم یافتہ ہونے کیساتھ ساتھ بے داغ ماضی رکھنے والے سیاست دان ہیں جو صوبائی وزارت یعنی صوبائی پارلیمانی سیکرٹری تک اپنی خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔

راجہ محمد علی گروپ کے قریبی ذرائع اور علاقائی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے احباب کے مطابق راجہ محمد علی ممکنہ طور پر پی پی سات کے ٹکٹ کے مضبوط امیدوار ہونگے۔ گزشتہ عام انتخابات میں تحصیل کلرسیداں سے دو اہم مسلم لیگی شخصیات آزاد حیثیت میں انتخابی دنگل کا حصہ بنے جن میں راجہ ندیم احمد جو ایم پی اے کے امیدوار تھے وہ دوبارہ نون لیگ میں شامل ہوچکے ہیں۔ اس میں خاص نکتہ نہ صرف مسلم لیگ میں واپسی ہے بلکہ راجہ صغیر کے کیمپ میں بھی جانا ہے کیونکہ اس سے قبل راجہ ندیم راجہ ظفر الحق کیمپ میں شامل تھے۔

دوسری شخصیت محمود شوکت بھٹی ہیں جو دو بار ممبر صوبائی اسمبلی رہے اور گزشتہ عام انتخابات میں آزاد حیثیت میں قومی اسمبلی کے امیدوار تھے۔ محمود شوکت بھٹی چینل انکی واپسی کے لیئے پی پی سات کے ٹکٹ کی ڈیمانڈ کر سکتا ہے البتہ اس بات کا انحصار محمود شوکت بھٹی پر ہے کہ آئندہ وقتوں میں وہ انتخابی سیاست میں کیا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ سیاسی بساط پر چالیں رکتی نہیں بلکہ ہمیشہ چلتی رہتی ہیں کبھی مات تو کبھی مخالف کو شہہ مات۔اہم یہ ہے کہ بیرسٹر احمد صغیر راجہ کیا اپنے والد کی طرح ٹکٹ نہ ملنے کی صورت میں بھی انتخابی دنگل میں موجود رہیں گے؟؟

اپنا تبصرہ بھیجیں