نواسہؓ رسول ﷺ شہید کربلا کے فضائل و مناقب

نواسہ رسول شہید کربلاحضرت حسینؓ جولخت جگر اور نورنظر ہیں۔فاتح خیبر امیر المومنین خلیفتہ المسلمین شیرخدا حیدر کرار مولا وسیدناحضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے ان کی شہادت اسلامی سال کے پہلے مہینہ محرم الحرام میں ہوئی اور آپ کی والدہ محترمہ کا نام سیدہ طیبہ طاہرہ صابرہ ساجدہ عابدہ شاکرہ زاہدہ حضرت فاطمتہ الزہراؓ ہے جو نبی اکرم شفیع اعظمﷺکی عمر میں چھوٹی مگر رتبہ میں بہت بلند واعلی اور لاڈلی صاحبزادی ہیں۔ جنہیں خاتون جنت کا لقب بھی حاصل ہے اورجن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے کس قدر خوش قسمت گھرانہ ہے نواسہ جنت کے نوجوانوں کا سردار والدہ امام الانبیاء کی بیٹی اور جنتی عورتوں کی سردار اور والد اسداللہ اصحاب محمد اور اہل بیت میں روشن چمکتے ستارے اس پورے گھرانہ کے فضائل احادیث مبارکہ میں موجود ہیں۔

حضرت فاطمتہ الزہراؓ کو رب العالمین نے تین بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا۔حضرت حسنؓ حضرت حسینؓ اورحضرت محسنؓ جبکہ بیٹیوں میں سیدہ زینبؓ اور سیدہ ام کلثومؓ شامل ہیں۔ حضرت حسینؓ کا نام حسین بن علی کنیت ابو عبداللہ اور لقب سید شباب اہل الجنہ اور ریحانۃ النبی ہے نبی اکرم شفیع اعظمﷺاپنے نواسوں سے بے حدمحبت، پیار اور شفقت فرماتے

حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللّہﷺ نے ارشاد فرمایا حسنؓ وحسینؓ جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہﷺ سے یہ سنا ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا حسن وحسینؓ دونوں جنت کے پھول ہیں آپؓ کی پیدائش سے قبل حضرت عباسؓ کی زوجہ محترمہ نے ایک خواب دیکھااورنبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر فرمانے لگیں کہ یارسول اللہﷺ رات میں نے ایک عجیب خواب دیکھاآپﷺ کے دریافت فرمانے پر فرمانے لگیں میں نے دیکھاکہ آپﷺ کے بدن کا ٹکڑا کٹ کر میری گود میں آگر۔ا رسول اللہﷺ نے ارشادفرمایا فاطمہ کے ہاں بیٹاہوگاوہ تمہاری گودمیں آئے گا

چنانچہ ایسا ہی ہوا جب خاتون جنت سیدہ فاطمتہ الزہراؓ کے ہاں جنت کے پھول حضرت حسینؓ 5 شعبان المعظم 4ھجری کو پیدا ہوئے اور آپ پھول کی صورت میں مہکنے لگے تو رسول اللہﷺ بنفس نفیس لائے اپنے نبوت والے ہاتھوں میں اٹھایا سینے سے لگایا اپنے لعاب دہن سے نوازا نواسہؓ رسولﷺ کے کان میں آذان دی خوب صورت نام حسینؓ رکھا اور ساتویں روز عقیقہ کیا حضرت حسینؓ اپنے نام کی طرح حسن و جمال میں شکل وصورت میں بھی انتہاء درجے کہ حسیں تھے کیونکہ آپؓ اپنے نانا تاجدار ختم نبوت امام الانبیاء حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰﷺ کے مشابہ تھے حضرت حسینؓ صرف اپنے والدین اور نبی کریمﷺ کے ہی نہیں بلکہ اس وقت سب اصحاب الرسولﷺ کی آنکھوں کا بھی تارہ تھے۔ آپﷺ نے تو یہ بھی فرمایا حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں

نبی کریم روف الرحیمﷺ اپنے نواسہ کے ساتھ بے انتہاء محبت فرماتے آپﷺ خطبہ ارشاد فرمارہے ہوتے حضرت حسینؓ تشریف لاتے تو آپﷺ منبر سے اتر کر نواسہ کواٹھا لیتے آپﷺ سجدہ کی حالت میں ہوتے نواسہ رسول نبوت کی کمر مبارک پر سوار ہوتے تو آپﷺ سجدہ طویل فرما لیتے کبھی کندھوں پر نواسہ رسول کو سواری کراتے کبھی اپنے نواسہ کو سینے مبارک کے ساتھ لگائے رکھتے جب نبی کریم ﷺنے اپنے نواسہ کو اپنے کندھوں پر سوار کیا تو اصحابؓ الرسول ﷺنے کہا سواری کتنی اعلیٰ ہے تو رسول اللّہﷺ نے فرمایا سوار بھی تو اعلی ہے اسی وجہ سے نواسہ رسول کیلئے نسبت قائم کرنے اور ان سے
محبت وعقیدت رکھتے ہوئے صحابہ کرامؓ ہر لمحہ ان کاخیال رکھتے ان سے محبت کا اظہار فرماتے حتی کہ جان بھی قربان کرنے کو سعادت سمجھتے سیدنا صدیق اکبرؓ کے دور میں فتوحات ہوئیں مال غنیمت میں ایک قیمت اور خوبصورت چادر آئی وہ آپؓ نے سیدنا حسینؓ کو دیتے ہوئے فرمایا یہ چادر شہزادے کیساتھ ہی اچھی لگتی ہے۔سیدنا فاروق اعظمؓ نے بدری اصحاب کے برابر دونوں شہزادوں کے وظائف مقررکئے ایک مرتبہ سیدنا فاروق اعظم کہ زمانہ میں حسنین کریمینؓ کے ناپ کاکپڑا میسرناہوا تو آپ نے فوراً یمن سے نئے جوڑے تیارکروائے اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا الحمدللہ اب دل کو راحت محسوس ہوئی۔ حضرت عثمان غنیؓ فرماتے ہیں جو شخص رسول اللّہﷺ سے محبت رکھتا ہے اس پر فرض ہے کہ وہ ان حسنین کریمینؓ سے بھی محبت رکھے۔ حضرت حسینؓ جہاں دیگر اعلی اوصاف کے مالک تھے وہاں آپ بہترین قاری قرآن بھی تھے

سخاوت شجاعت میں بھی اعلی رتبہ پر فائز تھے۔حضرت حسینؓ کو اہل کوفہ نے سینکڑوں خطوط لکھے آپ سے محبت وعقیدت کااظہارکیاآپ کے ہاتھ پر بیعت کا وعدہ کیا مگر جب حضرت حسینؓ وہاں پہنچے تو ان لوگوں نے وعدہ خلافی کی اپنے اظہار سے مکر گئے آپؓ بمع اہل و عیال اس سفر پر روانہ ہوئے صحابہ کرامؓ نے روکا لیکن آپ نے اپنا سفر جاری رکھا آپ جب میدان کربلا میں پہنچے تو 7 محرم الحرام کو میدان کربلا میں آپ پر پانی بندکردیاگیا آپ کے خاندان کوبچوں اور خواتین سمیت آپکی آنکھوں کے سامنے شہیدکردیاگیا لیکن جب اس اسد اللہ کے بیٹے نے تلوار تھامی تو یزیدی لشکر کو دن میں تارے دکھائے آپ جس طرف جاتے سامنے کھڑی فوج بھیڑ بکریوں کی طرح آپ کے خوف سے ڈر کر بھاگنے میں ہی عافیت سمجھتی۔

شمر آپ کی طرف دس آدمیوں سمیت بڑھا لیکن ان میں سے کسی کی بھی جرآت نا تھی کہ وہ حضرت حسینؓ کا مقابلہ کرتاان بزدلوں نے نواسہ رسول پر یک بار حملہ کیا حضرت حسین دلیرانہ مقابلہ کرتے رہے اپنے ناناکے دین کی حفاظت کرتے رہے اپنے خاندان کے لئے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے بلآخر 10 محرم الحرام 61ہجری کوشہید کردئیے گئے پھر شقی القلب سنان نے آپ کا سر مبارک کاٹا آپ کے ساتھ بہتر شہداء کو بھی شہید کیاگیا حضرت حسین نے دنیاکو پیغام دیاکہ جب دین اسلام کی حفاظت کی بات آئے حضور نبی کریم روف الرحیم ﷺکے ناموس کی بات آجائے تو پھر اپنا سب کچھ قربان کردو لیکن دین اسلام پر آنچ نا آنے پائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں