54

مذہبی منافرت اور دین کے نام پر کھلواڑ

آج بات ہو گی انتہائی اہم موضوع پر، ویسے تو ملک پاکستان کو بہت سے چیلنجز اور مسائل کا سامنا ہے مگر غربت اور جہالت درپیش تمام چیلنجز اور مسائل کو بڑھاوا دینے کا اہم سبب ہے اور ملک پاکستان میں موجود نام نہاد مذہبی طبقہ ان سے بھر پور فائدہ اٹھاتا ہے۔ مذہبی مدارس میں مفت تعلیم، مفت خوراک اور رہائش کا لالچ دے کر غریب بچوں کو داخل کرتے ہیں۔ انہیں صدقات و خیرات کا عادی بنا کر ان کی عزت نفس ختم کر دی جاتی ہے۔ انہیں معاشرے سے الگ تھلک رکھ کر ایک خاص ماحول کا عادی بنا دیا جاتا ہے۔

ان کی فکری اور تخلیقی صلاحیتوں کو مزید پروان چڑھانے کی بجائے ان کو جامد کرنے کے لئے اپنے اپنے مسلک کی مخصوص کتابیں رٹائی جاتی ہیں۔ یہ تنگ نظر اور فرسودہ مذہبی نظام تعلیم کا ماحول بچوں کی تربیت کی بجائے ان میں بہت سی اخلاقی اور معاشرتی برائیوں کے ساتھ ساتھ مذہبی منافرت پهیلانے کا سبب بنتا ہے۔ یہاں مذہب و مسلک کی کوئی قید نہیں، تمام مدارس میں کم و بیش ایک جیسا تعلیمی ماحول ہے سب مذہبی منافرت کو پھیلانے میں اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں جب ملک کے پاکستان کی سالمیت کے لیے زہر قاتل ہے۔

دوسری طرف ان مذہبی مدارس کے جو منتظمین ہیں یہ جو ان مدارس کے نام پر چندہ اور دیگر مراعات حاصل کرتے ہیں اور ان کے ذاتی اثاثوں میں مسلسل اضافہ ہوتا ہے۔ بعض مدارس باقاعدہ بیرونی امداد پر چلتے ہیں اور ان کے مقاصد بھی سب پر واضح ہیں۔ آپ مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ ان مدارس میں زیر تعلیم بچے اخلاقی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے اپنے والدین سے کوئی خاص لگاؤ نہیں رکھتے۔ اکثر والدین کے گستاخ ہوتے ہیں۔

مخصوص مدارس اس بات پر خاص توجہ دیتے ہیں کہ بچے والدین کی گرفت سے نکل جائیں اس طرح ان کا کام مزید آسان ہو جاتا ہے۔ ان مدارس سے فارغ التحصیل طلباء مناسب روزگار نہ ہونے کی وجہ سے کسی نہ کسی مسجد کے مولوی یا خطیب بن جاتے ہیں اور یوں یہ سلسلہ صدیوں سے جاری و ساری ہے۔ اگرچہ باوجود اس کے چند مدارس کو استثنا دیا جا سکتا ہے جیسے دعوت اسلامی کے زیر اہتمام چلنے والے تمام مدارس میں مفت معیاری تعلیم مفت رہائش و خوراک اور اخلاقی تربیت پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے لیکن دیگر مدارس کی غالب اکثریت انہی خطوط پر چل رہی ہے جو بیان کئے گئے ہیں۔

شہروں کی نسبت دور دراز علاقے خاص طور پر ان مذہبی لوگوں کا سافٹ ٹارگٹ ہیں کہ وہاں سہولتوں کی شدید کمی، تعلیم و شعور کا فقدان اور ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔ شہروں میں بھی ان کا ٹارگٹ مخصوص علاقے ہیں۔ ضلع بہاولنگر ہی کی مثال لیجئے، آپ کو پوش علاقوں میں ان کا وجود کم ہی نظر آئے گا۔ لوگوں کا دین سے متعلق عمومی رویہ منافقت پر مبنی ہے۔ ملک پاکستان کے لوگ اپنے لائق اور جسمانی طور پر صحیح و سالم تندرست بچوں کو تو ڈاکٹر، استاد، وکیل، جج اور انجنیئر بنانا چاہتے ہیں جبکہ ذہنی یا جسمانی طور پر بیمار معذور بچوں کو مدارس بھیج دیتے ہیں۔ جب تک چیزیں پوشیدہ تھیں، تھیں لیکن اب بہت کچھ سامنے آ چکا ہے۔ اب وہ وقت آ چکا ہے کہ ہر شخص کو ان مسائل سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

نجانے کتنے ہی ایسے واقعات ہیں جنہیں بیان کرنا بھی ذرا مناسب نہیں لگتا جو مذہبی مدارس میں پیش آتے ہیں اور بہت سے ایسے واقعات جو سامنے ہی نہیں آتے، ان واقعات کا نفسیاتی اور معاشرتی تجزیہ کیا جائے تو ہوش و حواس جاتے رہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگ اس بات کو سمجھیں کہ دین کے نام پر ان کے ساتھ اور ان کے بچوں کے ساتھ کیا كهلواڑ ہو رہا ہے۔ حکومت تمام مدرسوں پر اپنا کنٹرول قائم کرے اور اس عفریت کو پھیلنے سے روکے۔ ان مدارس کے لئے باقاعدہ ایک مربوط نظام وضع کیا جائے جو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔اللّه کریم ملک پاکستان کی خیر فرمائے۔ آمین

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں