146

کلیال بھٹی قبیلے کی تاریخ (تیسرا حصہ)

گزشتہ دو اقساط پر مشتمل تحریر میں یوسی گف کے گاوں چھپر میں آباد کلیال بھٹی قبیلے کے تاریخی پس منظر کو بیان کیا گیا تھا آج کی تحریر اسی سلسلے کی آخری کڑی ہے،کلیال بھٹی قبیلے کا قدیمی گاوں کلیال نزدیک روات جرنیلی سڑک کے مشرق میں توپ کلیال کے نام سے آباد ہے،توپ کلیال میں آباد کلیال بھٹی خاندانوں کا شجرہ جو جہلم کے مراسی/ دادکے کی کتاب سے نقل کیا گیا تھا

اس شجرے کے مطابق راجہ سونا خان راجہ بلند کا بیٹا تھاجو سیالکوٹ میں آباد ہوا تحقیق کے مطابق توپ کلیال میں آباد کلیال قبیلہ اور اراضی خاص میں آباد کلیال قبیلے کے جدامجد دونوں آپس میں بھائی تھے اس تحریر میں دونوں دیہات میں آباد انکی آل اولاد کے مختصر شجرہ کے متعلق معلومات فراہم کی جا رہی ہیں یہ شجرہ حاجی عالم خان نے جہلم کے رہائشی دادکے کی کتاب سے نقل کیا تھا بعد ازاں یہ شجرہ توپ کلیال کی رہائشی بزرگ شخصیت چوہدری تنویراحمد صاحب نے حاجی عالم خان سے نقل کیا اور بعد میں راقم نے چوہدری تنویراحمد صاحب کی ڈائری سے نقل کیا اس شجرے کے مطابق راجہ بلونت یا بلند کا بیٹا سونا خان تھا جنکے نیچے کالاخان،بیسرونت خان تھے،بیسرونت خان کے دو بیٹے دبنگ خان اور غنی خان تھے

دبنگ خان تنگدیو میں آباد ہوا،دبنگ خان کی آٹھویں پشت میں بہادر خان المعروف پہاڑ خان کا نام آتا ہے جو اراضی خاص گاوں میں آباد کلیال بھٹی قبیلے کے جدامجد ہیں جبکہ غنی خان کی ساتویں پشت میں سلام قلی خان کا ذکر ملتا ہے جو توپ کلیال میں آباد کلیال بھٹی قبیلے کے جدامجد ہیں انکی قبر کلیال گاوں کی مرکزی مسجد کے قریب واقع ہے 1955/56 قانون گو دفتر راولپنڈی کے ریکارڈ شجرہ دیہی کے مطابق گاوں چھپر موضع ڈیرہ خالصہ میں واقع ہے بہادر خان المعروف پہاڑ خان کی نویں پشت نیچے خدایار نام کے بزرگ کا ذکر ملتا ہے جنکے والد کا نام امیرخان تھا جنکے چار بیٹے تھے

بنگش‘ سموں‘ نورعلی خان اور ہنس تھے امیر خان کا ایک بیٹا سموں خان اراضی پنڈ سے نقل مکانی کر کے چھپر موضع ڈیرہ خالصہ آباد ہوئے سموں کے چار بیٹے تھے حسن علی‘ہاشم علی‘محمد بخش اور گاماں خان‘حسن علی کے دو بیٹے نور اور سکندر تھے نور کی اکلوتی اولاد مانہ جبکہ سکندر کے بیٹے کا نام دتو تھا اس سے آگے انکا شجرہ نسب سے متعلق معلومات دستیاب نہیں ہیں ہنس کے دو بیٹے بڈھا اور فتا تھے جنکی اولادیں اراضی موہڑہ میں آباد ہیں

جبکہ گاماں کی اولاد بھی اراضی موہڑہ میں آباد ہے،محمد بخش کی اکلوتی اولاد دادو خان تھے جنکی نرینہ اولاد نہیں تھی امیر خان کے بیٹے ہاشم خان کے تین بیٹے تھے فضل خان،نتھوخان اور بازخان،فضل خان کے تین بیٹے طورا باز،جہاندادخان،شادمان خان تھے، طورا باز کا اکلوتا بیٹا تھا جنکا نام منورحسین تھا انکے دو بیٹے محمد رزاق اور جاوید اقبال تھے،جاوید اقبال چھپرکی سیاسی وسماجی شخصیت ناصر جاوید کلیال،ناصرجاوید‘فیصل جاوید فواد جاوید رضوان جاوید اور طیب جاوید کے والد محترم ہیں

بازخان کے دو بیٹے زمان علی خان اور برہان علی خان تھے‘زمان علی خان کے بیٹے کا نام محمد شفیع تھا جنکے بیٹے کا نام مہتاب شفیع ہے‘جبکہ شادمان کے والد کا نام کرمداد تھا جنکی اکلوتی اولاد محمد احسان صاحب ہیں،نتھوخان کی اولاد میں امیرعلی خان، باغ علیخان اور عبدل خان شامل ہیں،امیر علی خان کا ایک ہی بیٹا تھا جنکا نام محمود خان تھا اور عبدل خان کے بیٹے کا نام محمد کاظم ہے،باغ علی خان کے چھ بیٹے تھے محمد نوروز خان، نصیرخان،صحبت علی خان، جہانداد خان فاضل خان اور ارشاد خان چھپر میں آباد کلیال بھٹی قبیلے کے چند گھرانے آباد ہیں جنکے جدامجد حسن علی اور ہاشم علی ہیں جبکہ اراضی خاص میں آباد کلیال بھٹیوں کیساتھ انکی رشتہ داریاں قائم ہیں

گاوں چھپر میں کلیال قبیلے کے علاوہ روپیال راجپوت اور ممیال راجپوت بھی آباد ہیں جو موضع ڈھیرہ خالصہ میں آباد ہیں ممیال راجپوت بھی گاوں چھپر اور چبوترہ میں آباد اکثریتی قبیلہ ہے چھپر میں آباد روپیال راجپوت قبیلے کا شجرہ روپ چند سے شروع ہوتا ہے جبکہ گاوں چھپر میں آباد روپیال قبیلے کے جدامجد کا نام محمد علی ہیں جنکے بیٹے کا نام شیخ میان تھا جنکے پانچ بیٹے تھے جنکی اولادیں گاوں چھپر اور موہڑہ روپیال میں آباد ہیں چھپر اور چبوترہ میں ممیال قبیلے کے جدامجد کا نام کماں اور پیربخش ہے جنکی اولادیں چھپر اور گاوں چبوترہ میں آباد ہیں

اگر کبھی موقعہ ملا تو روپیال اور ممیال راجپوت قبیلے کی یوسی گف کے گاوں چھپر اور چبوترہ میں آباد ممیال اور روپیال قبیلے کے تاریخی پس منظر اور شجرے کے حوالے سے تفصیلی تحریر پنڈی پوسٹ کے ایڈیشن کی زینت بنے گی،آخرمیں تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے محققین اساتذہ اکرام اور ایسی بزرگ شخصیات جنکے پاس قوموں کے حوالے سے مستند دستاویزات و شجرات موجود ہیں تو وہ بندہ ناچیز سے رابطہ کریں تاکہ تحصیل کلرسیداں میں آباد مختلف قبیلوں کی شناخت اور آباد کاری کے تاریخی پس منظر سے نوجوان نسل کو روشناس کرایا جائے کیونکہ یہ ایک قیمتی اور تاریخی سرمایہ ہے جسکی معلومات آنے والی نسلوں تک پہنچانے کیلئے ان تاریخی معلومات دستاویزات اور بزرگوں کی زبانی روایات کو محفوظ کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ کسی قوم کی اصل جاننے کیلئے اسکی نسل پر تحقیق ضروری ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں