صبح کے دامن پر ابھی اجالا پوری طرح بکھرا نہ تھا۔ پہلی کرن نے افق پر دستک دی تھی۔ فلک کے ہونٹوں پر سنہری مسکراہٹ کی ایک ہلکی سی لکیر نمودار ہو چکی تھی۔ ٹھنڈی نسیمِ سحر درختوں کی شاخوں کو چھو کر یوں گزر رہی تھی، جیسے کوئی خوابیدہ پری اپنے پر ہلاتی جا رہی ہو۔ کہیں کہیں بادلوں کے ملائم گال آسمان کی نیلگوں پیشانی پر تھپکیاں دے رہے تھے، اور فضا میں ایسی خاموشی تھی، گویا زمین و آسمان کسی قدیم راز پر سانسیں روکے غور کر رہے ہوں۔ مسجدوں سے لوٹنے والے نمازیوں کے قدموں کی مدھم چاپ، فضا میں بلند ہوتی بیلوں کے گلے کی گھنٹیوں میں گھل رہی تھی۔ پرندوں کی چہکار بھی آسمان پر اپنے سریلے سر بکھیر رہی تھی۔ سحر، اپنے دامن سے نور نچھاور کر رہی تھی۔ ایسے طلسمی لمحے میں، جب کائنات نیم بیدار اور نیم خوابیدہ تھی، صبا نیند کی وادیوں میں گم، کسی خواب کی تتلی کا دامن تھامے، وقت سے ماورا، خواب کی نرم چادر میں لپٹی نیند کے ساحلوں پر محوِ سفر تھی۔
تبھی اُس کے سرہانے ماں آ کھڑی ہوئی۔ اُن کے لہجے میں صبح کی صدا تھی، اور آنکھوں میں وہی مانوس فکر، جو سورج کے طلوع سے پہلے جگا دینے کی ضد کرتی ہے۔
”صبا… میری جان، اُٹھو!” اُن کی مدھر، میٹھی آواز میں ممتا کی التجا اور نغمگی گھلی ہوئی تھی۔ نماز کا وقت جا رہا ہے، چڑیاں ناشتہ چگنے آ گئی ہیں، اور تم ابھی بھی خواب میں گم ہو؟ ناشتہ بھی کرنا ہے، اور پھر یونیورسٹی کی تیاری بھی۔ جلدی کرو، صبح جاگ چکی ہے۔ اب تم بھی جاگ جاؤ۔ماں کے لفظوں کی یہ نرم، مسلسل بارش صبا کے خوابوں کی کھڑکی پر دستک دے رہی تھی، اس کے لاشعور کی زمین پر نرم پھوار بن کر برس رہی تھی، جیسے بہار کی پہلی بارش زمین کو بیدار کرتی ہے۔صبا نے آنکھیں کھولیں، جلدی سے فریش ہوئی، ناشتہ کیا۔ پھر لپ اسٹک، ادھر کریم، اُدھر مسکارا، اور یہ گئی، وہ گئی۔کرتے ہوئے یونیورسٹی کے لیے روانہ ہو گئی۔
اُدھر ثمینہ (صباء کی والدہ) جو بلا تامل بولے جا رہی تھیں، صبا کو یونیورسٹی بھیجتے ہی احسان اللہ (اپنے خاوند نامدار) کو یاد دلانے لگیں: عید قرباں میں چند روز باقی ہیں، قربانی کے جانور کا جلدی کچھ کر لو۔ جتنی دیر کرو گے، جیب پر چھری اتنی ہی تیز چلے گی۔ سنتے ہو؟ سب پڑوسی لے چکے ہیں، بلکہ سوشل میڈیا پر قربانی کے جانوروں کی نمائش پورے عروج پر ہے۔ جدھر نکلو، سجے ہوئے جانور گلیوں بازاروں میں چکر لگا رہے ہیں۔
دن اپنے شباب کی طرف رستہ لے چکا تھا۔ سورج آسمان پر پوری آب و تاب سے چمکنے لگا۔ صبا اپنی یونیورسٹی کی طرف رواں تھی، اور اس کے قدموں میں جیسے پھول بچھے تھے۔ چنچل صبا کی، ہوا کے دوش پر اڑتی چنری آج ذرا زیادہ سبک محسوس ہو رہی تھی۔ شہر کی گلیاں، چہچہاتی چڑیاں، کھلکھلاتی کلیاں، سب جیسے صبا کی خوشی میں شریک تھیں۔ یونیورسٹی کے گیٹ میں داخل ہوتے ہی ہر راہداری میں مبارکبادوں کی صدائیں گونج رہی تھیں۔ آج سالانہ نتائج کا دن تھا، اور صبا۔۔ صبا نے ایک بار پھر کمال کر دیا تھا۔ اپنی کلاس میں نہ صرف نمایاں کامیابی حاصل کی، بلکہ پورے ڈیپارٹمنٹ میں اول پوزیشن لی تھی۔ سہلیوں نے گلے لگایا، اساتذہ نے سراہا، اور صبا کی آنکھوں میں وہی پرانے خواب جگمگانے لگے، جو کئی راتوں کی جاگ، دعاؤں، محنتوں، اور وعدوں سے بنے گئے تھے۔
اسسٹنٹ کمشنر صبا احسان – ایک ایسا خواب جو اس کے کمرے کی دیوار پر چپکے چارٹ پیپر پر بھی درج تھا۔ ہر طرف پروٹوکول، ہر طرف سے سلیوٹ، شہر میں ایک نام، پہچان اور ٹھاٹھ کہ عزیز، دوست اور دشمن سبھی دوستی کے لیے بیتاب۔ وہ خوابوں میں خراماں رہتی، ہر روز ایک نئی کوہ قاف کی رنگین خیالی بستی آباد کرتی۔ وہ اپنے تئیں بہت کلیر تھی کہ خواب سے ہی تعبیر ہے یہی وہ نقشہ ہے جس کے مطابق اسے زندگی کی عمارت کو اٹھانا ہے۔ اس نے سوچ اور عمل کے تال میل سے ہی کامیاب زندگی کے خواب دیکھے تھے۔ اسے معلوم تھا خوابوں سے تعبیر کا سفر، صرف محنت اور شوق سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔لیکن آج کی خوشیاں محض تعلیمی کمالات تک محدود نہ تھیں۔ شام کو صبا کی سالگرہ کا فنکشن تھا۔ گھر جگمگا رہا تھا، روشنیوں سے، مسکراہٹوں سے، اور عزیزوں کی آمد سے۔ چاچو، خالائیں، سب جمع تھے۔ ہنسی کے فوارے تھے، محبت کے ترانے، اور مٹھائیوں میں لپٹا ہوا فخر۔
اور تب۔۔!جب کیک کاٹا جا رہا تھا، تالیاں بج رہی تھیں عین اسی ہنستی بستی محفل میں خالہ نے اپنے بیٹے عثمان کے لیے صبا کا رشتہ مانگ لیا۔ بابا نے ایک نگاہ صبا پر ڈالی‘ پھر ایک طویل سانس لی‘جیسے برسوں کی تھکن ایک لمحے میں لفظوں میں ڈھل گئی ہو۔ جی آپا جی، ہم راضی ہیں۔ یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ بیٹی اپکے گھر رخصت ہو گی۔ مطلب اپنے ہی گھر جائے گی۔ بس یہی مشن تھا، ایک کامیاب زندگی کا۔ اللہ کا شکر ہے، اب ہم اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو جائیں گے۔
ایک طرف سب نے تالیاں بجائیں۔ چہروں پر چمکتے چراغ روشن ہو گئے۔ صبا کے سامنے کیک رکھا گیا۔ موم بتیوں کی روشنی گل ہونے سے لمحہ پہلے، اُس کی آنکھوں کی نمی دھندلا گئی۔ اس کی آنکھوں میں چمکتے تارے، مرتے خوابوں کی طرح ٹوٹ کر گرنے لگے۔ چند لمحے پہلے خوشیوں سے بھری آنکھیں۔۔اب تحیر سے پھٹی ہوئی تھیں، یکایک خالی تھیں، بالکل اچاٹ۔ جہان زیست میں لمحوں کے کنج مخفف میں نشاط، بام عروج کو چھو کر کہیں فضاوں میں تحلیل ہو گئی۔ تخیلات الجھ کر سلگنے لگے۔ کیونکہ صبا جانتی تھی کہ وہ دونوں ماں بیٹا عورت کے ھاؤس وائف ہونے کے کے شدید قائل تھے۔ انکے مطابق ملازمت، کاروبار عورت کی ازاد خیالی کے راستے ہیں۔ جس سے میاں بیوی کے رشتے اور گھر میں بھونچالی کیفیت رہتی ہے۔ جبکہ صبا کو اپنے بلند ارادوں کی تکمیل کے لیے گھر سے نکل کر محنت کرنی تھی اسے اعلیٰ آفیسر بننے کے لیے صرف محنت ہی نہیں، معاشرے کے بنائے ہوئے کسٹمز کی نادیدہ دیواروں کو بھی پھلانگنا تھا۔ رشتے کی بات سنتے ہی اس کے دماغ میں جیسے عالمی جنگ چھڑ چکی تھی۔ جیسے بڑے بزرگوں کی پرانی سوچ والی فضائیہ نے نظریہ جدیدیت کے نمائندہ فائٹر جیٹوں پر حملہ کر دیا ہو، اور وہ چاروں شانے چت ہو چکی تھی -بلکل خاموش۔
کیا یہی انجام تھا برسوں کی مشقت کا؟ علم کی جستجو، جاگتی راتوں اور سلگتے دنوں کا؟ اُس خواب کا، جس میں وہ ایک چھوٹے سے شہر کی گرد آلود گلیوں میں قانون کی چھتری لیے، ظالم کے سامنے بیخوف کھڑی دکھائی دیتی تھی؟ کیا یہی منزل تھی اُس سفر کی، جس میں راتیں چراغ کی لو پر تحلیل ہوئیں اور دن کتابوں کے سائے میں سانس لیتے رہے؟آج جب ہر چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا، صبا بس خاموش کھڑی تھی۔اس کے لبوں پر محض ایک مصنوعی، زبردستی کی تھمی ہوئی مسکراہٹ تھی مگر دل اندر سے ویران ہو چکا تھا۔اُس کی آنکھوں میں گلیوں میں دوڑتے قربانی کے جانوروں کے منظر جھلملا رہے تھے، اور اسے یوں لگا جیسے اس کے سارے خواب بھی انہی کی طرح خاموشی سے ذبح کر دیے گئے ہوں۔
ابھی تو ذوالحجہ کی قربانی کے جانور بھی قربان نہیں ہوئے تھے مگر اسے آرزوں سمیت، قربانی سے پہلے ہی قربان کیا جا چکا تھا۔ ایک بے بس آنسو اس کی پلکوں سے ٹوٹا، اور گال پر خاموشی سے بہہ نکلا۔ کیا میں ان جانوروں سے بھی زیادہ بے بس ہوں؟ کیا میرے خوابوں کو حقیقت بننے کے لیے تھوڑا سا بھی مزید وقت نہ مل سکا؟” اسے زندگی کے فیصلوں کا قطعی اختیار نہیں تھا؟ جبکہ اللہ نے تو سب کو با اختیار پیدا کیا ہے۔ اس کا یہ خدا داد بنیادی حق کہاں گیا؟ کمرے کی کھڑکی سے آتی نسیمِ سحر کا لمس، اب شام کی ہوا میں بدل چکا تھا۔ ستارے ابھرنے جا رہے تھے…
اور صبا کا خواب… آسمان پر کسی ان دیکھے تارے کی مانند، آہستہ آہستہ مدھم پڑ رہا تھا۔ خوشیوں سے جگمگاتا، روشن لمحوں سے بھرپور دن اچانک پل بھر میں ایسی شام میں ڈھلا، جو آنکھوں کی روشنی بھی ساتھ لے گئی۔ پورے وجود کو بیجان کھنڈر کر گیا خوشی کا خیام بے خبری میں غم کی آغوش میں چلا گیا۔ شاید اسے کسی اجر عظیم کی خاطر ذبح کر دیا گیا تھا۔ اور پھر وہ، جس کا وجود کبھی زندگی سے لبریز تھا، ایسا بے حس و خاموش ہو گیا، جیسے گردن پر چھری چلنے کے بعد ایک ذبح شدہ جسم… جس سے تڑپ اور حرکت کو نچوڑ کر نکال کر پھینک دیا گیا تھا اب وہاں صرف سناٹا اور سکوت باقی تھا، جسم نہیں وجود نہیں صرف گوشت رہ گیا تھا۔ ارضی وجود موجود ہونے کے باوجود سماوی روح کی صورت ہو گیا (جس کی اپنی خواہشیں آرزوئیں فنا چکیں۔) بلکل خاموش، بے حس، بے زبان۔۔۔یہ رشتہ نہیں! صبا کے خوابوں اور ارادوں کی ذبیح تھا
امجد علی