109

معاشرتی بگاڑ اور نوجوان نسل کی اصلاح

سماج اور معاشرے میں بگاڑ کے کئی اسباب اور وجوہات ہیں۔ان پر غوروفکر کی ہر وقت ضرورت دامن گیر رہتی ہے۔بالخصوص نوجوان نسل کی بہتر تعلیم و تربیت تو وقت کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔دور حاضر کا تعلیمی نظام عصری تقاضوں کے آٸینہ میں دیکھا جاۓ تو نوجوان نسل اور افراد معاشرہ کی وہ ضروریات پوری نہیں کرتا جس کی اشد ضرورت ہے۔

اس ضمن میں ٹھوس تعلیمی پالیسی اور اقدامات کی ضرورت ہے۔تاکہ سماج میں مثبت رویے اور روابط فروغ پا سکیں۔معاشرتی اقدار کو تقویت ملے۔معاشرتی بگاڑ کی صورتحال کا جاٸزہ لیا جاۓ تو نوجوان نسل کی بہتر تعلیم اور مناسب تربیت کے لیے مکمل رہنمائی کی ضرورت ہے۔موبائل فون کے استعمال میں نوجوان نسل کی غیر معمولی دلچسپی سے ادب و احترام اور اخلاقیات سے دوری کا رجحان خطرناک حد تک بڑھ رہا ہے۔

اس دور میں نوجوان نسل میں انتہا پسندانہ جذبات انتہائی تشویش کا باعث ہیں۔اس سے قتل و غارت گری اور جوش انتقام کے خطرناک مناظر آۓ روز رونما ہوتے ہیں۔حال میں سوشل میڈیا کے استعمال سے انسانیت کے احترام سے دوری اور اخلاقیات سے عاری زندگی پریشان نظری کی شکار ہے۔سوشل میڈیا کا کثرت سے استعمال نوجوان نسل اور افراد معاشرہ کی ذہانت اور سوچنے کی صلاحیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔

کلام اقبال کا مطالعہ کرنے سے یہ بات بخوبی معلوم ہوتی ہے کہ نوجوان نسل کی ذمہ داری کس قدر اہم ہے۔بقول شاعر:-
کبھی اے نوجوان مسلم تدبر کیا بھی تو نے(اقبالؒ)
نوجوان نسل کو یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ تعمیر معاشرہ اور سماج کی بہتری کے لیے مثبت تربیت سب سے بڑی ضرورت ہے۔دیکھا جاۓ تو اس عہد میں نوجوان مکمل طور پر اپنی ذمہ داریوں اور کارناموں سے بے خبر ہے۔ایک بات جس کا شدت سے احساس کرنے کی ضرورت بھی ہے وہ والدین اور اساتذہ کا مطلوبہ کردار ہے۔

ایک مثالی تعلیمی نظام اور افراد معاشرہ کا مثبت کردار نہ صرف نوجوان نسل کی قسمت بدل سکتا ہےبلکہ حسن عمل سے زندگی بھی گلزار بن پاتی ہے۔جدت پسندی کے لبادے میں لپٹی سماجی زندگی کس قدر تباہی کے دہانے پر ہے یہ ایسا سلگتا سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنے کی اشد ضرورت ہے۔وہ معاشرہ اور سماج کس قدر مظلوم اور قابل رحم ہوتا ہے جہاں اخلاقیات سے عاری زندگی کا رجحان غالب ہو۔اس میں کوئی شک نہیں نوجوان نسل جدید علوم سے آراستہ ہے اور دنیوی تعلیم میں ڈگریوں کی دوڑ میں سب سے آگے ہے۔

لیکن عصرنو کے تقاضوں سے شناسائی کم ہوتی جارہی ہے۔دامن امید تو اسی وقت بھرتا ہے جب نوجوان با مقصد تعلیم سے آراستہ ہوں۔دوسروں کی عزت نفس اور احترام کا خیال رکھنا اور پرامن زندگی بسر کرنا تو انسانیت کی معراج ہے۔یہی اسلوب تو جوجوانوں اور افراد معاشرہ کو سکھانا ہے کہ زندگی کی رونق بہار کے لیے مثبت تعلیم وتربیت کا اہتمام ضروری ہے۔اس اہم بات پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت تو ہر وقت ہے۔زندگی ایک امانت ہے۔اس لیے اس کا احساس بھی کرنا چاہیے۔

اس ضمن میں والدین اور معاشرے کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔جذبات کی رو میں بہنے سے عقل و شعور اس قدر متاثر کہ انسان وحشی بن جاتا ہے۔آۓ روز قتل اور ظلم و ستم کے واقعات منظر عام پر آتے ہیں تو انسان کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں کہ یہ انسان تو رب کریم کی کتنی پیاری مخلوق ہے۔

اس کی سرشت میں تو درد دل ہے۔لیکن یہی انسان وحشی بن جاۓ تو تباہی و بربادی سے چین اور سکون کی دولت غارت کر دیتا ہے۔ضرورت فقط بہتر خطوط پر تعلیم و تربیت سے کردار اور سیرت کی تعمیر کی جاۓ۔یہ احساس بھی اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ زندہ دلی کی خوبیوں کو اجاگر کیا جاۓ۔اصلاح احوال کی ضرورت ہر وقت رہتی ہے۔

انسانیت کے تقاضوں کا احترام اور بھلاٸی کی فضا سے معاشرتی سکون بحال رہتا ہے۔مثبت طرز عمل اور بہترین تعلیمی حکمت عملی سے بہار زندگی کا حسن دوبالا ہوتا ہے۔اچھی تعلیم و تربیت اور مثبت سوچ و افکار پر مبنی کتب کا مطالعہ نوجوان نسل کی رہنمائی کے لیے مثالی کردار ادا کرتا ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں