38

حضرت مولانا قاری منیر احمد اعوان نور اللہ مرقدہ

ہم مہمان نہیں رونق محفل تھے
مدتوں یاد رکھو گے کے کوئی آیا تھا
چکوال کا نام آتے ہی کئی نامور شخصیات کے نام خوشبو کی طرح بکھر جاتے ہیں جن کا کام اج بھی علاقے میں نظر آتا ہے۔حضرت مولانا قاضی مظہر حسین مرحوم حضرت مولانا ہیر غلام حبیب نقشبندی مرحوم سمیت کئی شخصیات جنکے نقوش تاریخ کے ما تھے پہ ثبت ہیں۔زمانہ طالب علمی سے برادر مکرم حضرت مولانا عبد الماجد اعوان حفظ اللہ سے رفا قت رہی ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے حضرت کے والد بز ر گوار علیل تھے اس دو ان اپنے والد صاحب کی خدمت میں رہے جو بڑی سعادت مندی ہے۔ بالآخر جدائی کا وہ لمحہ بھی آ گیا اور عالم دنیا سے عالم برزخ کی طرف حضرت قاری صاحب کا سفر شروع ہوا۔

حضرت قاری صاحب کا آبائی وطن کھرلی جہاں آنکھ کھولی اور اس سفر کا آغاز کیا جو آج الحمدللہ ایک علاقے نہیں بلکہ ہر جگہ اس فیضان کی مہک محسوس ہو رہی ہے۔
یہ نصف صدی کا قصہ ہے
دو چار برس کی بات نہیں
حضرت بڑی نسبتوں کے حامل تھے اس حوالے سے تفصیلات حضرت مولانا مفتی ظہیر احمد ظہیر صاحب نے مستقل تحریر فرمائی ہیں ان کی خدمات کو مستقل کتابی شکل دی جائے تا کہ عقیدت منداں اس باہمت،با وفا شخصیت کو خراج محبت ہیش کرتے رہیں۔انسان کی زندگی ایک عارضی سفر ہے، جس میں خوشیاں، غم، کامیابیاں اور جدائیاں سبھی شامل ہیں۔ جب کوئی اپنا اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے، تو دل بے تاب ہو جاتا ہے، آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں اور طبیعت ایک عجیب اداسی میں ڈوب جاتی ہے۔ لیکن اگر بچھڑنے والا والد ہو تو یہ غم اور بھی گہرا ہو جاتا ہے۔ وہ والد جو بچوں کے لیے دن رات محنت کرتا رہا جس نے اپنی خوشیاں،اپنی خواہشیں، اپنی نیندیں قربان کر کے ہمیں پروان چڑھایا، جب وہ چلا جاتا ہے، تو یوں لگتا ہے جیسے زندگی کا ایک بڑا سہارا چھن گیا ہو۔

باپ: محبت، قربانی اور دعاؤں کا سایہ
باپ صرف ایک رشتہ نہیں، بلکہ ایک تحفظ، ایک دعاؤں کا حصار، اور بے لوث محبت کا دوسرا نام ہے۔ جب ہم بچے تھے، تو ہماری ہر خواہش پوری کرنے والا وہی تھا۔ جب ہمیں کوئی تکلیف ہوتی، تو وہ اپنی تکلیف بھول کر ہمارے لیے فکرمند ہوتا۔ جب ہمیں کوئی کامیابی ملتی، تو اس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ جاتے۔ وہ اپنی ضروریات کو پسِ پشت ڈال کر ہماری ضروریات پوری کرتا رہا اور ہمیں کبھی احساس نہیں ہونے دیا کہ اس کے دل میں بھی کوئی حسرت ہو سکتی ہے اور پھر جب وہ ہمیں دنیا کے جھمیلوں میں چھوڑ کر خود اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے تو ایک ایسا خلا پیدا ہو جاتا ہے جو کبھی پُر نہیں ہوتا۔ اس کی نصیحتیں‘اس کی باتیں، اس کی مسکراہٹ‘ سب کچھ یاد آتا ہے۔
وہ ہستی جسے ہم نے ہمیشہ مضبوط دیکھا ایک دن خاموش ہو جاتی ہے۔ پھر صرف اس کی دعائیں اور یادیں باقی رہ جاتی ہیں۔
دعا: بچھڑے والد کے لیے سب سے قیمتی تحفہکسی عزیز کی وفات پر ہمارا سب سے پہلا سہارا دعا بنتی ہے۔ لیکن جب دعا کا رخ اپنے والد کے لیے ہو، تو وہ دل سے گہرائیوں سے نکلتی ہے: ”اے اللہ! میرے والد کی مغفرت فرما، اسے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرما، اس کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنا دے، اس کے درجات بلند کر، اور اسے اپنی رحمت کے سائے میں رکھ۔”

قرآن کا پیغام: خاندان کا جنت میں اکٹھا ہونا
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں یہ بشارت دی ہے کہ اگر انسان ایمان اور نیک اعمال کے ساتھ زندگی گزارے، تو اس کا خاندان جنت میں اس کے ساتھ ہوگا: ”اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی ایمان میں ان کے نقش قدم پر چلی، ہم ان کی اولاد کو بھی ان کے ساتھ ملا دیں گے…” (الطور: 21). یہ ایک ایسی خوشخبری ہے جو ہر مومن کے دل کو خوشی سے بھر دیتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ خاندان کا جنت میں اکٹھا ہونا ممکن ہے، تو پھر کیوں نہ ہم اس کے لیے بھرپور کوشش کریں؟ کیوں نہ ایسی زندگی گزاریں جو ہمیں اور ہمارے پیاروں کو جنت کے قریب کر دے؟مشہور نعت گو شاعر سید سلیمان گیلانی حفظ اللّٰہ نے حضرت قاری صاحب مرحوم پہ جو تخیل پیش کیا ہے اس کو سپرد قارئین کرتے ہیں۔
وہ دیں کے عالم و فاضل وہ حافظ قرآن
بہت سی نسبتوں کے تھے امیں منیر اعوان
خدا کے ساتھ تعلق تھا اس قدر گہرا
کبھی نہ پھرتا تھا اس کی طرف سے ان کا دھیان
ہمیشہ محو رہے دین حق کی خدمت میں
تھی نام حق کی بلندی کی فکر انہیں ہر آن
تھی ان کو قاضی ء مظہر سے ایک نسبت خاص
تھے ان کے وعظ و نصیحت کی مجلسوں کی وہ جان
براہ راست وہ کرتے تھے کسب فیض ان سے
جنہیں نصیب خدا و نبی کا تھا عرفان
وہ سر پرست تھے ایسے کء اداروں کے
پڑھایا جاتا ہے جن میں حدیث اور قرآن
خدا نے دی انہیں اولاد نیک اور صالح
عطا کی اہلیہ بھی ایک صاحب ایمان
تمام بیٹیاں، بہویں بھی رب نے کی ہیں عطا
ہے جن کے دل میں بھرا خوب جذبہ ء ایمان
فقط زباں سے ہی کرتے نہ تھے وہ حق کا دفاع
تھے ہر عدو کے مقابل وہ غازی میدان
ہیں ان کی ساری ہی اولاد پر یہ فضل خدا
ہیں سب کے سب ہی خطیب و ادیب والا شان
اب اس سے بڑھ کے ولایت کی ان کی کیا ہو دلیل
کہ وقت نزع بھی ان کی زباں پہ تھا قرآن
میں اس دعا پہ کروں ختم بات گیلانی
کہ ان پہ منزلیں سب آخرت کی ہوں آسان
ہمیشہ رحمتوں کے پھول برسیں تربت پر
بروز حشر بھی راضی ہو ان سے رب رحمان
سید سلمان گیلانی شاہ جی۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں