116

بلدیاتی انتخابات‘ن لیگ دھڑے بندیوں کا شکار/ آصف شاہ

بلدیاتی الیکشن کا سلسلہ بلوچستان اور خیبر پختون خواہ سے ہوتا ہوا وفاقی دارلحکومت اسلام آباد تک پہنچ گیا ہے اور اب رمضان کے بعد پنجاب میں یہ سلسلہ شروع ہونے کا امکان ہے،لیکن پنجاب حکومت انتخابات سے جانے کیوں کنی کترا رہی ہے۔ہائی کورٹ لاہور کے فیصلہ کی نظر میں اگر دیکھا جائے تو الیکشن پارٹی بنیادوں پر کرانے کا حکم ہے لیکن ن لیگ کی اس وقت کی کارگردگی کی وجہ سے اس کے لئے یہ انتخابات گلے کی ہڈی ثابت ہوسکتے ہیں ایک طرف تو پارٹی واضع طور پردھڑوں میں تقسیم ہوئی ہے ،دوسری طرف حکومتی کارگردگی سونے پہ سہاگہ کا کا م کر رہی ہے،راولپنڈی میں اس وقت واضع طور پر شکیل اعوان ،سردار نسیم، چوہدری تنویر کے ساتھ مختلف گروپ میدان میں ہیں اور بینر اور پوسٹر پر واضع گروپ کی نشاندہی پارٹی میں گروپ بندی کا اشارہ دے رے ہیں پی پی5کی کچھ یونین کونسل کی جہاں پر ن لیگ ایک دوسرے کے خلاف الیکشن میں کھڑی نظر آتی ہے،یوسی بگا شیخاں میں اس وقت جتنے بھی پینل کا اعلان کیا گیا ہے ایک کے سواء سب کا تعلق ن لیگ سے ہے اور سب ہی پارٹی ٹکٹ کے دعویدار ہیں او ر الیکشن میں حصہ لینے کا دعوی کر رہے ہیں،یوسی لوہدرہ میں بھی صورت حال مختلف نہیں ہے نوید بھٹی سے لیکرراجہ فہیم الحق ایڈوکیٹ،چوہدری خرم سلطان ،چوہدری طارق نمبردار کا تعلق بھی ن لیگ سے ہے اور اگر تمام دھڑے ٹکٹ کے دعویدار ہیں اگر ن لیگ کسی ایک دھڑے کو سپورٹ کرتی ہے تو یقیناًدوسرے دھڑوں نے ہاتھ دھو بیٹھے گی یوسی غزن آباد پر اگر نظر ڈالی جائے تو سب سے ذیادہ امیدوار بلکہ دعویدار اسی یوسی سے الیکشن کے میدان میں ہیں اورسب کے سب ٹکٹ کے ساتھ پرانے مسلم لیگی ہونے کے دعویداربھی ہیں لیکن یہاں سے ماسٹر عبدالمجید کی ن لیگ سے وابستگی اور کا کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں،یوسی مغل میں دو امیدوار تھے اور دونوں لیگی لیکن اس دفعہ چوہدری عامر کا الیکشن میں حصہ نہ لینا شائیدملک نوری کے لیے ٹکٹ کی راہ ہوار کر دے اب ایک نظر یوسی بشنڈوٹ پر جہاں پر اس وقت ذبیر کیانی سر فہرست جا رہے تھے اور ان کی الیکشن مہم بھی کافی عرصہ سے جاری تھی ان کے مدمقابل ہمایوں کیانی تھے جن کی الیکشن کی مہم اتنی اچھی نہ تھی لیکن پاکستان تحریک انصاف کے یوسی بشنڈوٹ کے جلسہ سے انکی مہم میں ایک جان پڑ گئی اور دوسری طرف ن لیگ کے چوہدری اسامہ بھی میدان میں کود پڑے اوراب شنید ہے کی چوہدری اظہر آذاز بھی میدان میں آنے کے لیے پر تول رہے ہیں اس یوسی میں بھی ابھی تک تین ن لیگی امیدوار میدان میں آچکے ہیں اور تینوں ہی پارٹی ٹکٹ کے دعویدار ہیں، یہاں چوہدری تنویر گروپ بھی اپنا اثر رسوخ رکھتا ہے اور چوہدری تنویر اور چوہدری نثار علی خان کی سیاسی رسہ کشی مسلہ پیدا کر سکتی ہے دوسری طرف چوہدری تنویر نے حالیہ کنٹوئمنٹ بورڈ کے الیکشن میں راولپنڈی کی تمام سیٹوں جیت کر اپنی اہلیت ثابت کردی ہے اور اگر بلدیاتی الیکشن میں چوہدری تنویر کی مداخلت کو نظر انداز کرنا مشکل ہوگا تو دوسری طرف چوہدری نثار اپنے حلقہ میں مداخلت کو بھی پسند نہیں کرتے جو یقیناًن لیگ کے لئے ایک درد سر کی سی حثیت اختیار کر جا ئے گی،اب نظر یوسی ساگری پر جہاں پر تمام امیدواروں کے ساتھ ساتھ شیخ ساجدالرحمن کی اپنی یوسی بھی ہے یہاں پر راجہ شہزاد یونس کے ساتھ ساتھ قاسم کیانی،اور نوید بٹ بھی میدان میں آنے کے لیے تیار ہیں اور ان تینوں کا تعلق بھی ن لیگ سے ہے راجہ شہزاد کی سیاسی کارکردگی اور ن سے وابستگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے آمرانہ دور میں جب کوئی ن لیگ کا نام بھی گناہ تھا اس وقت راجہ شہزاد نے یوسی ساگری سے ن لیگ کو کندھا دیا تھا جو آج تک بھی موجود ہے راجہ شہزاد کی سیاسی سرگرمیاں یوسی میں بہت زیادہ ہیں اور وہ یوسی کے ہر معاملہ میں ن لیگ کے نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں قاسم کیانی سیاست میں نئے ہیں اور ان کی سیاسی کارگردگی اتنی خاص نہیں ہے اور نوید بٹ کی بھی سیاسی حالت بھی قاسم کیانی سے مختلف نہیں ہے،لیکن اس یوسی میں ایک سیاسی دھڑہ راجہ شہزاد کی ٹکٹ کی راہ میں رکاوٹ بنا رہا ہے لیکن راجہ شہزاد اس یوسی میں ایک مضبوط امیدوار ہیںیوں اگر دیکھا جائے تو مغل اور ساگری کے علاوہ باوقی تمام یوسی میں ن لیگ کے لیے بلدیاتی انتخابات گلے کی ہڈی ثابت ہوسکتے ہیں سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ اگر پارٹی ٹکٹ جاری کرتی ہے تو دھڑوں سے ہاتھ دھوبیٹھے گی اور اگر پرانے کارکنوں کو نظر انداز کر کے ٹکٹ جاری کرتی ہے تو بھی اس کے لیے مسلہ بنے گا ۔بہرصورت کیا ہو گا الیکشن ہوں گے بھی یا نہیں یہ تو آنے والا وقت بتائے اور دکھاے گا لیکن ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اگر پیپلز پارٹی کی طرح جھٹکا لگ گیا تو اس کا نام نشان مٹ جائے گا.{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں