پولیس کی ساکھ بحال کرنا‘ وقت کی ضرورت

راولپنڈی کا پاکستان کے بڑے شہروں میں شمار ہوتا ہے،یہ شہر ہمیشہ سے انتظامی و عسکری اعتبار سے اہم رہا ہے۔ تاہم، حالیہ برسوں میں راولپنڈی پولیس پر بڑھتے ہوئے جرائم، بدعنوانی، اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات نے عوامی اعتماد کو شدید دھچکہ پہنچایا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک قانون نافذ کرنے والا ادارہ، جس کا کام عوام کی جان و مال کی حفاظت ہے، خود جرائم پیشہ کیوں بن رہا ہے چند روز قبل تھانہ چکلالہ کی حدود رحیم آباد پل کے پاس چار ڈالفن اہلکاروں نے شہری کو تلاشی کے بہانے روکا اس سے موبائل بٹوہ اور دکان کی چابی لیکر کر چلتے بنے شہری نے روکنے کی کوشش کی تو اس پر بندوق تان لی گئی دوسرا واقعہ تھانہ سٹی کی حدود میں پیش آیا جہاں ایک حاضر سروس اہلکار اقر ایک ریٹائرڈپولیس اہلکار نے شہری سے چھ لاکھ چھین لیے تاہم وہ بعد ازاں گرفتار ہوگے اسی طرح راولپنڈی کی حدود میں پی ایچ پی کے ایک اہلکار نے نہ صرف شہری سے رقم لوٹی بلکہ اس کیخلاف منشیات کا جھوٹا مقدمہ بھی بنوا دیا یہ چند واقعات لکھنے کا مقصد یہ بتاتا مقصود ہے کہ عوام کے ٹیکسز سے تنخواہ لینے والے انکے محافظ ہی انکو لوٹنے لگی پولیس کا نظام کیوں درست سمت گامزن نہیں اسکی بڑی وجہ سیاسی مداخلت اور سفارشی کلچرہے راولپنڈی پولیس میں سیاسی اثرورسوخ ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے بھرتیوں سے لے کر تبادلوں اور تفتیشی معاملات تک سیاسی دباو واضح نظر آتا ہے۔ جب پولیس افسران کو میرٹ کے بجائے سفارش پر تعینات کیا جائے تو ان کی وفاداریاں عوام کے بجائے اُن افراد سے جُڑ جاتی ہیں جنہوں نے اُنہیں عہدہ دلایا ہوتا ہے۔

اس کلچر نے پولیس کی غیر جانبداری کو بری طرح متاثر کیا ہے دوسرا اہم ایشو کرپشن اور مالی مفادات ہیں پولیس تھانوں میں ہونے والی کرپشن کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہیFIRکے اندراج سے لے کر تفتیش کے طریقہ کار تک، ہر مرحلے پر ”ریٹ” مقرر ہیں۔ کچھ اہلکار منشیات فروشوں، قبضہ مافیا، اور دیگر جرائم پیشہ عناصر سے باقاعدہ ماہانہ وصول کرتے ہیں جب پولیس خود مجرموں سے پیسے لے کر انہیں تحفظ دے، تو وہ بھی عملی طور پر جرائم پیشہ بن جاتی ہے ایک اہم۔نقطہ احتساب کا فقدان بھی ہیراولپنڈی پولیس کے اہلکاروں کے خلاف شکایات درج ہونا معمول کی بات بن چکی ہے، لیکن ان پر کارروائی شاذونادر ہی ہوتی ہے۔ محکمہ جاتی احتسابی نظام کمزور ہے اور اکثر افسران اپنے ساتھیوں کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غلطی کرنے والے اہلکاروں کو سزا دینے کے بجائے اکثر صرف معطل یا تبادلہ کیا جاتا ہے، جو کہ مسئلے کا حل نہیں بلکہ ایک وقتی پردہ پوشی ہے چند روز قبل تھانہ دھمیال تعنیات اہلکاروں کیخلاف کارروائی کی۔گئی لیکن دودن بعد ہی وہ باہر آچکے ہیں پولیس اہلکاروں کی تربیت میں جدید تقاضوں اور اخلاقی اقدار کا فقدان نظر آتا ہے۔ مجرمانہ ذہنیت کے حامل افراد بھی نظام کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر فورس میں شامل ہو جاتے ہیں

مسلسل ذہنی دباو، ناقص سہولیات، اور کم تنخواہوں کے باعث بھی بعض اہلکار رشوت اور جرائم کی طرف مائل ہو جاتے ہیں سوشل میڈیا کے بڑھتے کردار نے کئی پولیس اہلکاروں کی مجرمانہ سرگرمیوں کو بے نقاب کیا ہے جعلی پولیس مقابلے، بے گناہوں پر تشدد، خواتین کے ساتھ ناروا سلوک، اور بھتہ خوری جیسے معاملات اب عوام کے سامنے آ رہے ہیں۔ میڈیا کی آزادی نے پولیس کے چہرے سے پردہ ہٹا دیا ہے دوسری طرف اکثر شہری اپنے حقوق اور قانونی طریقہ کار سے ناواقف ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پولیس کے ظلم و زیادتی کے خلاف آواز اٹھانے سے ڈرتے ہیں یا بے بس ہوتے ہیں۔ یہ خاموشی پولیس اہلکاروں کو مزید بے لگام بنا دیتی ہے چند اہم نقطے ہیں جن کو اپنا کر فورس ایک منظم ادارے کے طور پر سامنے آسکتی ہیں جیسے احتسابی نظام کو شفاف اور میرٹ پر مبنی بنایا جائیپولیس کو خودمختار ادارہ بنایا جائے، جو صرف قانون کے تابع ہوہر سطح پر شفاف تحقیقات اور فوری سزاؤں کا نظام رائج کیا جائے کمیونٹی پولیسنگ اور شہری نگرانی کے سسٹم کو فروغ دیا جائے اہلکاروں کی مالی ضروریات کو پورا کر کے رشوت کی راہیں روکی جا سکتی ہیں ان چند چیزوں پر عمل پیرا ہوکر نہ صرف راولپنڈی پولیس بلکہ پنجاب بھر پولیس سسٹم میں بڑھتے جرائم اور بدعنوانی کا رجحان صرف ایک ادارہ جاتی ناکامی نہیں بلکہ پورے نظام کی خرابی کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر فوری اور جامع اصلاحات نہ کی گئیں تو یہ عمل صرف راولپنڈی تک محدود نہیں رہے گا بلکہ دیگر شہروں کو بھی متاثر کرے گا۔ پولیس کی ساکھ بحال کرنا ایک قومی ضرورت بن چکی ہے، جس کے لیے سنجیدہ اقدامات ناگزیر ہیں اوراسکا بہترین حل جزا سزا کے عمل۔کو مضبوط بنانے میں یے اگرناانصافی سے معاشرہ تباہ ہوسکتا ہے توکسی بھی ادارے میں اتنی ہمت کہاں پولیس کو ایک بہترین ادارہ بنانے کے لیے اصلاحات پر عمل درآمد فوری اور وقت کی ضرورت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں