94

دنیا کی سب سے حسین ہستی “ماں” ہے

ماں کا لفظ زبان پر آتے ہی ذہن میں گھنی ٹھنڈی چھاؤں کا احساس ہونے لگتا ہے ۔ماں کی محبت اور بے لوث چاہت زندگی کے تپتے ہوئے صحرا میں ایک محفوظ پناہ گاہ کادرجہ رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ انسان کو زندگی کے کسی بھی حصے میں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو بے ساختہ “ماں” کا لفظ ہی زبان سے نکلتا ہے ۔ قدرت نے ماں کو تخلیق کرکے انسانیت پر بہت بڑا احسان کیا ہے ۔

حقیقت تو یہ ہے کہ جب اﷲ تعالی نے ماں کو تخلیق کرنے کا ارادہ فرمایا تو فرشتوں کو حکم دیا کہ چاند کی ٹھنڈک ٗ شبنم کے آنسو ٗ بلبل کے نغمے ٗ چکوری کی تڑپ ٗ گلاب کے رنگ ٗ پھول کی مہک ٗ کوئل کی کوک ٗ سمندر کی گہرائی ٗ دریاؤں کی روانی ٗ موجوں کا جوش ٗ کہکشاں کی رنگینی ٗ زمین کی چمک ٗ صبح کانور اور آفتاب کی تمازت کو جمع کیا جائے تاکہ ماں کو تخلیق کیا جائے ۔جب ماں کو خدانے بنایا تو فرشتوں نے پوچھا اے مالک دو جہاں تو نے اس میں اپنی طرف سے کیا شامل کیا ہے تو اﷲ تعالی نے فرمایا میں نے اپنی طرف سے ماں کی ہستی میں “محبت “شامل کی ہے۔

ماں کی شخصیت میں چاند کی ٹھنڈ ک دیکھنی ہو تو اس وقت دیکھی جائے جب کوئی بچہ اپنی ماں کی آغوش میں سر رکھ کر گہری نیند سو رہا ہوتا ہے ۔ شبنم کے آنسو اس وقت ماں کی آنکھوں میں تیرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جب بچے کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے اور وہ اس کا درد محسوس کرتے ہوئے آنسو بہاتی ہے تب شبنم کے آنسو بہنے لگتے ہیں ۔
اسےایثارٗ قربانی اور ممتا کی انتہاء قرار دیا جاسکتاہے ۔جس طرح بلبل پودے کو اپنے جگر کا لہو دے کر گلاب کا پھول اگاتی ہے اسی طرح ماں اپنے جگر کا خون دے کر اپنے پیٹ میں نو مہینے رکھ کر گوشت کے لتھڑے کو انسانی روپ دے کر تخلیق کی دنیا میں انقلاب برپا کرتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کوئی شخص پوری زندگی بھی ماں کی خدمت کرتا رہے تب بھی وہ اس رات کی قیمت ادا نہیں کرسکتا جس

رات ماں سخت سردی کے موسم میں خود پیشاب والی گیلی جگہ پر لیٹتی ہے اور بچے کو اپنی خشک جگہ پر لٹاتی ہے۔ ماں کی تڑپ کو ان لمحات میں دیکھنا چاہیئے جب وہ محاذ جنگ پر دشمن سے برسرپیکار ہوتا ہے اور ماں سینکڑوں میل دور بیٹھ کر اپنے بیٹے کی جان کی سلامتی کے لیے رو رو کر رب العزت سے دعا مانگتی ہے ۔ پھر جب محاذ جنگ پر بیٹا دشمن سے دست بدست جنگ کرتا ہوا شہید ہوتا ہے اس وقت ماں کی جو حالت ہوتی ہے وہ اللہ ہی جانتا ہے۔ ماں اور بیٹے کا رشتہ دنیا کے حساس ترین نظام کا ایک اہم ترین حصہ ہے ۔

جو ماں کے وجود میں قدرت نے عطارکھا ہے۔ گلاب کے رنگ ٗ ماں اپنے جسم کا خون دے کر بچے کو نئی زندگی عطا کرتی ہے دنیا کی کوئی اور طاقت ایسی نہیں جو بچے کے لیے اس قدر ایثار کا جذبہ رکھتی ہو ۔ پیدائش سے لے لڑکپن تک بچے کے وجود سے بدبو کا آنا ایک فطری امر ہے ۔بار بار پیشاب کرنے سے وجود میں پاکیزگی کو برقرار رکھنا تقریبا ناممکن ہوجاتا ہے ایسے میں جب کہ باپ بھی بدبو کی وجہ سے بچوں سے کچھ فاصلے پر سوتا ہے لیکن وہی بدبو ماں کے لیے دنیا کی سب سے اچھی خوشبو بن جاتی ہے ماں اس بچے کے جسم سے اٹھنے والی بدبو کو اپنے وجود کا حصہ بنا کر بچے کو سینے سے لگائے رکھتی ہے گویا بچے کے جسم سے اٹھنے والی بدبو ماں کو پھولوں کی مہک سے زیادہ خوشگوار اور معطر محسوس ہوتی ہے ۔اسی طرح وہ مکان کبھی گھر نہیں کہلایا جاسکتا جہاں ماں کا وجود نہ ہو ۔

ماں جب بچے کو سلانے کے لیے لوریاں سناتی ہے ۔وہ اتنی سریلی ہوتی ہیں جوبچے کے ذہن میں ہمیشہ کے لیے نقش ہوجاتی ہے۔ ماں کا دل سمندر کی گہرائی سے بھی زیادہ گہرا ہوتا ہے وہ بچے کی ہر چھوٹی بڑی غلطی ٗ کوتاہی اور نافرمانی کومعاف کراسکو دنیا کی ہر مصیبت سے بچانا چاہتے ہے۔ماں کی زندگی بچوں کے لیے ایثار ٗمحبت ٗ شفقت اور چاہت کا خوبصورت امتزاج ہوتی ہے ۔

زمین کی چمک ۔ ماں کے چہرے پر اس وقت زمین کی چمک اور چاند کی روشنی سے زیادہ نور نظرآتا ہے جب اس کے بچے صبح سے نکلے ہوئے شام کو خیریت سے گھر واپس لوٹتے ہیں تو اپنے بچوں کو گھر واپس آتا ہوا دیکھ کر ماں کی آنکھوں میں خوشی کی جو چمک پیدا ہوتی ہے اسے زمین کی چمک اور چاند کی روشنی قرار دیا جاسکتا ہے۔ماں کے خمیر میں محبت کا جو عنصر اﷲ تعالی نے اپنی طرف سے شامل کیا ہے وہ خالق کائنات کی اپنی ذات کا وصف ہے ۔ جس طرح اﷲ اپنے بندوں کو پیار کرتا ہے اسی طرح ماں اپنے بچوں سے ۔وہ اپنا تن من دھن اپنا حسن ٗ جوانی ٗ صحت حتی کہ سب کچھ اپنی اولاد پر نچھاور کردیتی ہے ۔
اس حوالے سے ایک واقعہ نبی کریم ﷺ کے دور میں رونما ہوا جو کچھ یوں ہے۔ ایک شخص جو زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھا۔وہ شخص ماں کا نافرمان تھا ۔جب کسی نے نبی کریم ﷺ کو اس صورتحال سےآگاہ کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا اس شخص کی ماں کو بلا یا جائے ۔ماں حاضر ہوئی تو آپ ﷺ نے ماں سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ تم اپنے بیٹے کو معاف کردو کیونکہ وہ جان کنی کی جس تکلیف میں مبتلا ہے اگر تم معاف کردوگی تب اس کو اس تکلیف دہ حالت سے چھٹکارا مل سکتا ہے ۔

ماں نے جواب دیا اے اﷲ کے پیارے نبی ﷺ ۔ میرا بیٹا بہت نافرمان ہے وہ بیوی کو مجھ پر ترجیح دیتا ہے۔ میں اسے کسی بھی صورت میں معاف نہیں کرسکتی ۔ماں کا جواب سن کر نبی کریم ﷺ نے لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دیا۔ ماں نے حیرت پوچھا کہ لکڑیاں کیوں جمع کی جارہی ہیں نبی کریم ﷺ نے فرمایا ان لکڑیوں سے آگ جلا کر اس میں تمہارے نافرمان بیٹے کو جلایا جائے گا ۔یہ سن کر فورا ماں کی ممتا نے جوش مارا اور وہ نبی کریمﷺ کے پاؤں میں گر پڑی کہ خدارا میرے بیٹے کو آگ میں نہ جلایا جائے میں اس کاہر گناہ اور اس کی ہر زیادتی کو معاف کرتی ہوں ۔

ویسے تو اﷲ کی ذات ہی سب پر مہربان ہوتی ہے اور اپنے بندے کو ستر ماؤں جتنا پیار کرنے کا دعوی بھی کرتی ہے ۔لیکن ماں کا جذبہ محبت اگر دیکھنا ہوتوہمیں کہیں دور نہیں جانا پڑتا بلکہ ہر گھر میں ماں ایک فرشتے کا روپ دھار کر اپنی تمام تر محبتیں اولاد پر نچھاور کرتی ہوئی ہر لمحے دکھائی دیتی ہیں
تمام عمر بچوں کو پڑھاتی لکھاتی، ان کی بہترین تربیت کر کے ان کو کام یاب انسان بناتی ہیں۔ اپنی خواہشات اور ارمانوں کو اولاد کے بہترین مستقبل پر قربان کر دیتی ہیں، لیکن لوگوں کی بدگمانیاں، تہمتیں ان کی شخصیت کو اندر سے زخمی کر دیتی ہیں۔

ہمارے مذہب میں بھی ماں کا کردار بہت بلند ہے۔ اس کی اس ساری جدوجہد کا محور اس کے بچے ہوتے ہیں، جن کی تعلیم وتربیت اور غذائی ضرورت کی تکمیل کے لیے وہ یہ سب کر رہی ہوتی ہے۔ کولہو کے بیل کی طرح صبح سے رات تک کام میں جُتی ماں، اس وقت کسی کانچ سے بھی زیادہ برے طریقے سے ٹوٹ کر چکنا چور ہوجاتی ہے، جب اس پر طرح طرح کی باتیں بنائی جاتی ہیں۔ وہ صرف اپنے بچوں کی خاطر یہ سب جھیل رہی ہوتی ہیں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں