مجاہد تحفظ ختم نبوت و ناموس صحابہ‘میاں ابراہیم کھٹانہ

گل فروشوں کو کیسے سمجھاؤں
اْس کی خوشبو اْسی سے آتی ہے
خانوادہ جمالیہ گھنیلا شریف کے حوالے سے یہ واقعہ اکثر سنا پڑھا حضرت احمد علی لاہوری ؒ مزار حضرت میاں جمال ولی ؒ پہ آئے مراقبہ فرمایا اس سفر میں میزبان و رہبر جو شخصیت تھی ان کا نام حضرت مولانا میاں ابراہیم انارکلی والے۔نواسہ امیر شریعت کفیل شاہ حفظ اللہ کے سامنے جب حضرت کا ذکر ہوا جس انداز سے ان کا ذکر فرمایا تجسس رہا ایسی شخصیت کی زندگی کے گوشے منظر عام پہ آئیں۔اسی حوالے سے سرپرست اعلی قلم کار فورم پاکستان مولانا میاں محمود الحسن بالاکوٹی حفظ اللہ ایک مسودہ تیار کر چکے ہیں ان شاء اللہ جلد کتابی شکل منظر عام پہ ہو گا۔

حضرت کی شخصیت خدمات پہ کئی کتب لکھی جا سکتی ہیں مگر ہم اس مرد درویش مرد حر کو مختصر قلمی خراج پیش کرنے کی سعادت حاصل کریں گے جس میں ان کا مختصر سوانحی خاکہ شامل ہو گا۔آپ کی پیدائش جناب میاں مسعود احمد کھٹانہ کے ہاں ڈبریاں یونین کونسل گھنول تحصیل بالاکوٹ ضلع مانسہرہ 1904ء میں ہوئی۔ابتدائی تعلیم والدین سے حاصل کی علم کی تڑپ و جستجو لے کر مسافرت اختیار کی پہلے موضع پرانا سنگڑ پہنچے اپنے تایا مولانا عبد اللہ سے عربی کی ابتدائی کتب پڑھیں اور اس کے بعد بٹکرڑ شریف میں اس وقت کے مشہور عالم دین مولانا میاں غلام محی الدین المعروف مولوی کنہاروی سے کتب فنون پڑھیں ان کے شاگردوں میں بڑے پائے کے علماء گزرے ہیں ان شاء اللہ ان پہ مستقل لکھیں گے۔کاکول ایبٹ آباد کی مشہور درسگاہ میں مولانا عبدالعزیز محدث سے اصول حدیث و اصول فقہ کی تعلیم حاصل کی پھر مولانا سعید جو حضرت شیخ الھند رح کے ممتاز شاگرد تھے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے ان سے علمی استفادہ کیا۔

تکمیل علوم کے لیے لاہور کا سفر کیا اور قدیم مدرسہ نعمانیہ سے حدیث پڑھی اور سلسلہ تعلیم جاری تھا سند فراغت حاصل کرنے کے قریب ہی تھے کہ غازی علم الدین شہید رح کی تحریک چلی۔امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رح کے ساتھ اس تحریک میں بھرپور حصہ لیا ہے دینی حمیت و غیرت آپ کی فطرت میں شامل تھی بالخصوص ایسے مواقع پہ رگ جمالی فورا حرکت میں آتی تھی معاملہ تحفظ ختم نبوت کا ہو یا تحفظ ناموس صحابہ کرام ؓکا یوم معاویہ رض کے حوالے آپ کو شہر بدر بھی کیا گیا تھا تحریک تحفظ ختم نبوت مارشل لاء کے دور میں اولا پابندی توڑنے والے آپ ہی تھے جس کا ذکر تاریخ میں ملتا ہے رگ جمالی فورا حرکت میں آ جاتی تھی۔مولانا شیر محمد بالاکوٹی باہروال لکھتے ہیں 1982ء میں آپ بمبئی میں امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔

آپ پر وہاں بغاوت کا مقدمہ چلایا گیا آپ نے انگریزوں کے خلاف لوگوں کو بغاوت پہ اکسایا اور پمفلٹ تقسیم کئے ایک عرصہ تک آپ پر مقدمہ چلا بالآخر آپ کو باعزت بری کر دیا گیا۔ایک سال بمبئی میں خدمات سرانجام دیتے رہے اور پھر 1939ء سے 1941ء تک پرانی میوہ منڈی لاہور میں زینت منبر و محراب رہے۔1941ء میں جامع مسجد نیو انارکلی میں خطابت کے فرائض سرانجام دینا شروع کی۔

آپ شعلہ نواع اور حق گو خطیب تھے گرج دار آواز اور پر اثر انداز میں تقریر کرتے ہر فتنے کا للکارتے۔
مجاہدین کی صف اول میں رہے اور کھری بات حاکم کے منہ پہ کہ دیتے تھے اور ہاتھ میں تلوار بھی رکھتے تھے جو آپ کے جذبہ جہاد اور حق گوئی کی علامت تھی اسی لیے عوام و خواص میں مولوی تلوار کے لقب سے مشہور ہو گے۔اسی مجاہدانہ مزاج کو امیر احرار سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی و حضرت مولانا احمد علی لاہوری کی محبت سے اور بھی تقویت ملی اور سراپا ہمت و مجسمہ غیرت بن گے۔

اگر تحریکوں کی بات کی جائے 1939ء میں فدائے ناموس رسالت حضرت غازی علم الدین شہید کی تحریک 1930ء کی تحریک شہید گنج،تحریک جہاد کشمیر،تحریک پاکستان،تحریک ختم نبوت 1953ء دور ایوبی کی تحریک سول نافرمانی تحریک ختم نبوت 1974ء تحریک نظام مصطفی1977ء اور دوسری متعدد تحریکوں میں بے مثال کردار ادا کیا اور آپ کی مسجد ان تحریکات کا مرکز اور چھاؤنی رہی تمام اکابرین علماء اور سیاسی زعماء آپ کو اپنا خاص معتمد اور مخلص دست راست سمجھتے تھے۔

آپ مرکزی مجلس مشاورت میں شامل تھے۔بارہا پابند سلاسل ہوئے اور جبر برادشت کیا اور جب کبھی ناموس رسالت و ناموس صحابہ کرام رض پر کوئی حرف آنا چاہا نظام مصطفوی کے خلاف کوئی بات سنتے مولوی تلوار کی رگوں میں دوڑتا خون جمالی غیرت ایمانی سے دریا کنہار کی موجوں کی طرح بے قرار ہو جاتا تھا۔1963ء میں یوم سیدنا امیر معاویہ رض منانے کے جرم میں آپ کو شہر بدر کیا گیا۔تحریک قیام پاکستان کے حوالے سے آپ کا مثالی کردار ہے عظیم شخصیت حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی کے ارشاد پر اسلام کے عادلانہ نظام اور شریعت مصطفیٰ کے نفاذ کے لئے مملکت پاکستان کے حصول کی جدوجہد میں شریک ہوئے۔اس سے قبل فرنگی اور فرنگی نظام سے نفرت نے آپ کو جمعیت علماء ہند سے وابستہ کر دیا تھا آپ نے آزادی وطن کے لئے انتھک جدوجہد کی۔

مہاجرین کی آباد کاری کے حوالے سے آپ کی خدمات مثالی رہی ہیں۔ آپ مجلس احرار میں شامل رہے اور جب مجلس احرار الاسلام نے 1956ء میں سیاسی میدان سے علیحدگی اختیار کی تو آپ جمعیت علماء اسلام سے وابستہ ہو گے۔سالہا سال آپ جمعیت کے مرکزی خازن کے فرائض سرانجام دیتے ریے اور تاحیات مجلس شوری کے ممبر رہے۔

بابا صحافت مولانا ظفر علی خان مرحوم نے آپ کا جرات مندانہ اقدام اپنے مشہور اخبار زمیندار میں سراہا جب آپ حضرت علی ہجویری ؒ کے مزار کے سامنے مجرا کرنے والوں کی محفل شباب پہ ٹوٹ پڑے اور نعرہ مستانہ لگایا کہ آج کے بعد اللہ کے ولی کے مزار پہ مجرا نہی ہونے دوں گا۔۔11 جنوری 1983ء جمعرات کو آپ کا وصال ہوا۔وفات سے قبل 70 مرتبہ سورۃ یسین کی تلاوت کی اپنے فرزندِ حضرت مولانا میاں عبدالرحمن کا ہاتھ پکڑ کر کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے جان آفرین کے سپرد کر دی۔

آپ کے بعد آپ کے مشن کو آپ کے صاحبزادے حضرت مولانا میاں عبدالرحمن نور اللہ مرقدہ لے کر چلے اسی منہج کو اختیار کیا۔اور آج الحمدللہ حضرت کے پوتے اس مسند کے پہرہ دار ہیں اسی طرز کو لے کر چل رہے ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں