اقتصادی بحالی کے لئے پاکستان کی وفاقی حکو مت نے اُڑان پاکستان کے نا م سے ایک دس سالہ منصوبہ لانچ کیا ہے۔ جس میں اقتصادی شراخ نمو اور برآمدات کے ساتھ ساتھ سماجی شعبو ں کے لئے بلند اہداف مقرر کئے ہیں۔
پاکستان کے وزیراعظم شہبازشریف نے 23دسمبر 2024کو اس پروگرام کاباقاعدہ افتتاح ایسے مو قع پر کیا جب حکو مت کی جانب سے ملکی معیشت میں استحکام اور مہنگائی کی رفتار میں کمی سے متعلق دعوے کئے گئے ہیں اور جبکہ آئی ایم ایف سے سات ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کے سلسلے میں پاکستان ٹیکس نجکاری اور تو انا ئی سمیت دیگر شعبو ں میں اصلاحات کی کو شش کر رہا ہے۔
اُڑان پاکستان کے تحت آئندہ طویل مدت میں 2035ء تک کے معاشی اہداف مقرر کئے گئے ہیں مثلا شرح نمو میں اگلے دس برس یعنی 2035ء تک چھ فی صد اضافے اور مجموعی قومی پیداوار کاسائز ایک ٹریلین ڈالر تک لے جانے کاہدف مقرر کیاگیا ہے۔
مقررین کی رائے میں اڑان پاکستان کے تحت جو بڑے اہداف رکھے گئے ہیں وہ ملک کے مو جو دہ معاشی اشاریوں کے مقابلے میں صرف خواہشمندانہ ہو سکتے ہیں ان اہداف کا حصول اس لئے مشکل ہے کہ ایک تو پاکستان میں جاری سیاسی بحران کا فی الحال کو ئی حل نظر نہیں آرہا ہے ۔
وزیرمنصوبہ بندی کا کہنا ہے یہ اڑان پاکستان ایک جامع قومی اقتصادی تبدیلی کا منصوبہ ہے جو پاکستان کو ترقی کی نئی بلندیو ں تک پہنچائے گا حکومت کے مطابق اس پروگرام کا مقصد ملک کو مستحکم پائیدار اورعالمی معیشت میں مسابقتی بنانا ہے۔
اس پروگرام کا پہلا مقصد برآمدات پر مبنی معیشت کو تشکیل دینا اور دوسرا مقصد ملک میں ڈیجیٹل انقلاب لانا تیسرا مقصد ماحولیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات سے لپٹنا ہے
چوتھامقصد انرجی اور انفرااسٹرکچر سیکٹرپر تو جہ دینا جبکہ پانچواں مقصد یکویٹی پر معاشرے کی تعمیر ہے۔ اس پروگرام کے تحت جو اہداف مقرر کئے گئے ہیں ان میں سب سے پہلے بر آمدات کو اگلے دس سالوں میں ساٹھ ارب ڈالر سالانہ تک پہنچانا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کی بر آمدات کا مو جو دہ حجم تیس ارب ڈالر سالانہ کے لگ بھگ ہے۔
اسی طرح مجموعی قومی پیداوارکی شرح نموکو آئندہ دس برس میں چھ فی صدتک لے جاناہے جبکہ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی ہیں شرح نموایک فیصد سے بھی کم رہی ہے آئندہ دس برس میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی فری لانسنگ انڈسٹری کو پانچ ارب ڈالر تک لے جا نے کا ہدف مقرر کیاگیا ہے جس کے لئے سالانہ دولاکھ آئی ٹی گریجو یٹس تیار کئے جائیں گے۔
ماحولیاتی تبدیلی کے شعبے آئندہ دس برس میں گرین ہاوس گیسز میں پچاس فی صد تک کمی کا ہدف مقرر کیاگیا ہے اور اس کے ساتھ قابل کا شت زمین میں بیس فی صد سے زائد اضافہ اور پانی کو زخیرہ کرنے کی گنجائش میں دس ملین ایکٹرفٹ تک کا اضافہ کرنا ہے
توانائی کے شعبے میں قابل تجدید تو انائی کا حصہ دس فی صد تک بڑھا نا ہے۔سماجی مساوات کے شعبے میں غربت کی شرح میں تیرہ فی صد تک کمی لانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے ورلڈبنک کے اعلادوشمار کے مطابق پاکستان میں چالیس فی صد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے اور عالمی بنک کے اندازوں کے مطابق 2026ء تک یہ شرح بیالیس فی صد سے اوپررہنے کا امکان ہے
حکو مت اس پرو گر ام میں سر ما یہ کاری کے مو اقع فراہم کر ے گی۔ اس میں قومی اور بین الاقوامی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لئے آسان قوانین اور مراعات شامل ہیں اس کے ساتھ ڈیجیٹل سہو لت کاری کے سلسلے میں آئی ٹی سٹارٹ اپس اور فری لانسنگ انڈسٹری کے لئے معاونت فراہم کی جا ئے گی جبکہ ملکی تحقیق اختراع اورصنعتی ترقی کے لئے فنڈز اور گرانٹس کی صورت میں حکومتی مدد فراہم کی جائے گی۔
عوامی شرکت داری کے لئے پبلک پرائیو یٹ پارٹنر شپ کے ذریعے بڑے پیمانے پر ترقیاتی منصوبے بھی اس پروگرام کا حصہ ہیں حکومت کی جانب سے اڑان پاکستان کو گیم چینجر قرار دیا گیا ہے
اس پروگرام کے تحت معاشی استحکام کا ہدف ہے کیونکہ بر آمدات پر مبنی معیشت کا قیام پاکستانی روپے کا مستحکم کر ے گا اور معاشی ترقی کو فروغ دے گاٹیکنالو جی کا فروغ پاکستان کو عالمی مارکیٹ میں نمایاں کرے گا اور ماحولیاتی تحفظ کے شعبے میں پائیدار ترقی کے لئے قدرتی وسائل کا بہتر استعمال ہو گا
جبکہ سماجی مساوات کے شعبے میں خواتین اور نوجوانوں کو معاشی ترقی میں شامل کیا جائے گا۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ اڑان پاکستان میں طے کئے گئے اہداف پاکستان کی معیشت کے موجو د ہ اشاریوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں اوران کے دس سالوں میں حصول کے بارے میں ماہرین معاشیات زیادہ پرامید نہیں ہیں
ان کے نزدیک پاکستان کے موجودہ زمینی حقائق‘جیسا کہ سیاسی عدم استحکام اور امن وامان کی نا قص صورتحال میں ان اہداف کا حصول بہت مشکل لگتاہے پاکستان کی معیشت کاسب سے بڑا مسئلہ قلیل مدتی اہداف ہیں جبکہ حکومت طویل مدتی اہداف حاصل نہیں ہو پارہے
جیسا کہ ٹیکس کی وصولی وغیرہ تو ایسی صورتحال میں ملک کاکسی بڑے ہدف کی طرف بڑھنا کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ چھ فی صد گروتھ ریٹ حاصل کرنا بھی بہت مشکل ہے اور یوں مجمو عی قومی پیداوار کاسائز ایک کھرب ڈالر تک لے جانا بھی بہت مشکل لگتا ہے
کیو نکہ پاکستانی معیشت اس مالی سال میں بڑی مشکل سے ایک فی صد تک شرح نمو حاصل کر سکی ہے۔ساٹھ ارب ڈالر کی بر آمد ات کا ہدف حاصل کرنا اس لئے مشکل ہوگا کہ یہ ہدف انڈسٹری نے حاصل کرنا ہے جو اس میں سرمایہ کاری سے ہو گا جبکہ پاکستان میں انڈسٹری میں سرمایہ کاری کی حالت یہ ہے کہ اس وقت پچیس سالوں کی کم ترین سطح پر موجود ہے سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے پاکستان میں سرمایہ کاری پہلے ہی کم ہوچکی ہے اور دہشت گردی کے جو واقعات مسلسل ہو رہے ہیں اس سے سرمایہ کاری کے بڑھنے کے امکانات ناممکن دکھائی دے رہے ہیں۔
حکومت کی جانب سے اڑان پاکستان میں ڈیجیٹل انقلاب کی بات کی گئی ہے جبکہ یہاں حالت یہ ہے کہ فری لانسنگ کمیونٹی انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے بری طرح متاثر ہو ئی ہے اور اربوں ڈالر کی حد میں مبینہ فائر وال نصب کئے جانے سے آئی ٹی کے شعبے میں ترقی متاثر ہو ئی ہے
اگر حکومت اورنجی شعبہ شفافیت استقامت اور عوامی شمولیت کے ساتھ کام کرے تو یہ اہداف قابل حصول ہو سکتے ہیں اور اس سلسلے میں ملائشیا،ترقی اور جنوبی کو ریا جیسے ملکو ں کی مثال موجو د ہے اور مو ثر پالیسی سازی،ترقیاتی شراکت داری اور وسائل کی تقسیم کے ذریعے ان ہداف کا حاصل کرنا ممکن ہے
پاکستان کی وفاقی حکومت نے اڑان پاکستان پروجیکٹ لانچ تو کر دیا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ یہ پروجیکٹ اڑان کیسے بھرے گا کیونکہ اس پروجیکٹ کوچلانے کے لئے پیسوں کی ضرورت ہو گی جس کے لئے قرض لینے کی ضرورت ہو گی حالانکہ پاکستان کا بال بال پہلے ہی قرضوں میں جکڑا ہو ا ہے
اور ہمارے ملک کا مجموعی غیر ملکی قرضہ ایک سو تیس ارب ڈالر ز سے تجاوز کر چکا ہے اور اس کے علاوہ پاکستان نے ملکی مالیاتی اداروں اور بنکوں سے بھی ادھار لے رکھا ہے پاکستان نے صرف آئی ایم ایف سے ہی قرض نہیں لیا بلکہ اس کے علاوہ پیرس کلب عالمی بنک ایشیا ئی ترقیاتی بنک چین سعودی عرب امارات کا بھی مقروض ہے
صورتحال یہ ہے کہ ہم جتنا ان قرضوں سے باہر نکلنے کی کو شش کر تے ہیں اتنا ہی اس دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ دہائیوں پہلے بجلی کی پرائیو یٹ کمپنیوں کا پاکستانی عوام کے گلے میں ڈالے جانے والا وہ آئینی پھندہ ہے جس کی دم گھونٹ دینے والی سختی اتنی بڑھ گئی ہے
کہ اب عوام کا سانس لینا بھی دشوار ہو گیا ہے کو ئی صورت نظر نہیں آتی کہ عوام کو اس عذاب سے نجات کیسے ملے ضرورت اس امرکی ہے کہ اڑان پاکستان پروجیکٹ کو لانچ کرنے کے لئے ملکی وسائل کو بروئے کار لایا جا ئے اور مزید قرضوں کابوجھ عوام پر نہ ڈالا جائے تاکہ پاکستانی عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔