95

365 دن:سالِ رفتہ کا سبق، سالِ نو کا عزم !

365 دن! یہ کوئی معمولی گنتی نہیں بلکہ زندگی کے ایک اور باب کے مکمل ہونے کا اعلان ہے۔ ہر دن گویا ایک کہانی ہے، ایک واقعہ، اور ایک سبق ہے۔ یہ دن ہمیں پلٹ کر اپنی ذات کا جائزہ لینے کا موقع فراہم کرتے ہیں، ہمیں اس بات پر غور کرنے کا وقت دیتے ہیں کہ ہم نے اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے کتنی محنت کی، اپنی زندگی کی تعمیر کے لیے کتنے اقدامات اٹھائے، اور اپنے رب کی خوشنودی کے لیے کیا کچھ کیا۔


وقت، جو زندگی کی سب سے قیمتی دولت ہے، ہمیں ہر لمحہ ایک موقع دیتا ہے، ایک موقع اپنی اصلاح کرنے کا، اپنے مقصد کو پانے کا، اور اپنی زندگی کو بہتر بنانے کا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم نے ان مواقع کا کتنا فائدہ اٹھایا؟ کیا ہم نے اپنی زندگی کو ان اصولوں پر گزارا جو ہمیں ایک کامیاب انسان اور بہترین مسلمان بنا سکیں؟ یا ہم نے اپنے وقت کو خواہشات، فضولیات، اور بے مقصد سرگرمیوں میں ضائع کر دیا؟


سال کا اختتام ایک آئینے کی مانند ہے، جو ہمیں ہماری زندگی کی اصل تصویر دکھاتا ہے۔ یہ آئینہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہم نے کہاں کامیابی حاصل کی، کہاں ناکام ہوئے، اور کہاں ہم نے اپنی زندگی کے قیمتی لمحے ضائع کر دیے۔ یہ آئینہ ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ وقت کو سمجھنا اور اس کا صحیح استعمال کرنا کتنا ضروری ہے۔


کامیابیاں زندگی کی خوشبو ہیں، لیکن ان کا مطلب صرف دنیاوی تعریف و توصیف نہیں۔ اصل کامیابی وہ ہے جو دل کو سکون دے، ضمیر کو مطمئن کرے، اور آخرت کے درجات بلند کرے۔ اگر ہم نے اس سال میں کچھ کامیابیاں حاصل کیں، تو یہ ہماری محنت اور اللہ کی مدد کا نتیجہ ہے۔ لیکن کیا ہم نے ان کامیابیوں پر شکر ادا کیا؟ کیا ہم نے اپنی کامیابی کو دوسروں کے لیے فائدہ مند بنایا؟ اگر ہماری کامیابیاں صرف ہمارے لیے تھیں، تو یہ سوچنے کا مقام ہے کہ کیا ہم واقعی کامیاب ہوئے؟


ناکامی کو اکثر ایک منفی پہلو کے طور پر دیکھا جاتا ہے، حالانکہ یہ ہماری زندگی کی سب سے بڑی معلم ہو سکتی ہے۔ ناکامی ہمیں سکھاتی ہے کہ کہاں ہم نے غلطی کی، کہاں ہم نے کمزوری دکھائی، اور کہاں ہمیں اپنی کوششوں میں مزید اضافہ کرنا چاہیے۔ لیکن کیا ہم نے اپنی ناکامیوں سے سبق سیکھا؟ یا ہم نے انہیں اپنے لیے بوجھ بنا لیا؟ زندگی میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو اپنی ناکامیوں سے ہار ماننے کے بجائے ان سے سیکھتے ہیں اور اپنی کمزوریوں کو طاقت میں بدلتے ہیں۔


یہ سال ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا ہم نے اپنے تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش کی؟ کیا ہم نے اپنے والدین کے حقوق ادا کیے؟ کیا ہم نے اپنے رشتہ داروں، دوستوں، اور ساتھیوں کے ساتھ حسنِ سلوک رکھا؟ یا ہم نے اپنی انا اور خودغرضی کے باعث ان تعلقات کو برباد کر دیا؟


سال کے اختتام پر ہمیں اپنی نیتوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ کیا ہم نے اپنی زندگی کے لمحات کو نیک اعمال کے لیے وقف کیا؟ کیا ہم نے اپنی عبادات کو بہتر بنایا؟ کیا ہم نے اپنے دل کو پاکیزہ رکھا؟ اور کیا ہم نے اپنے آپ کو اس مقام پر پہنچایا جہاں ہم اپنے رب کے قریب ہو سکیں؟ اگر ہم نے اپنی زندگی کے یہ لمحات فضول اور غیر ضروری کاموں میں ضائع کر دیے، تو یہ وقت ہمیں یہ سوچنے کا موقع دیتا ہے کہ ہمیں اپنی زندگی میں کیا تبدیلیاں لانی ہیں۔


نئے سال کی دہلیز پر قدم رکھتے ہوئے، یہ وقت ہے کہ ہم اپنے اندر عزم پیدا کریں۔ وہ عزم جو ہمیں اپنی زندگی کے مقصد کو پہچاننے پر مجبور کرے، جو ہمیں اپنی ذات کی اصلاح کی طرف راغب کرے، اور جو ہمیں ایک بہتر انسان بننے میں مدد دے۔ ہمیں اپنے وقت کو ایسے کاموں میں صرف کرنا چاہیے جو ہماری دنیا اور آخرت دونوں کے لیے فائدہ مند ہوں۔
زندگی کے یہ 365 دن ہمیں یہ یاد دلاتے ہیں کہ وقت کسی کے لیے نہیں رک سکتا۔ جو لمحے گزر گئے، وہ یا تو ہمارے حق میں گواہی دیں گے یا ہمارے خلاف۔ یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم ان لمحات کو کیسے استعمال کرتے ہیں۔ ہر دن ایک خزانہ ہے، اور ہمیں اسے ایسے استعمال کرنا چاہیے کہ جب ہم اپنے گزرے وقت کو یاد کریں، تو ہمیں شرمندگی نہ ہو بلکہ فخر ہو۔


یہ سال ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ کامیابی اور ناکامی دونوں ہماری زندگی کا حصہ ہیں۔ ہمیں ان دونوں سے سبق لینا چاہیے اور اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ وقت کو سنوارنے کا ایک ہی طریقہ ہے: اسے بہترین اعمال میں صرف کرنا۔ عبادات، علم، خدمتِ خلق، اور مثبت سوچ کے ساتھ گزارا گیا وقت ہی وہ سرمایہ ہے جو کبھی ضائع نہیں ہوتا۔


“سال کا اختتام محض ایک عدد کا ختم ہونا نہیں، بلکہ یہ ایک موقع ہے خود کو بہتر بنانے کا، اپنی زندگی کی سمت درست کرنے کا، اور اپنی آخرت کے لیے سرمایہ جمع کرنے کا۔ وقت کے ان صفحات میں وہی لوگ روشن تحریریں چھوڑ سکتے ہیں جو اپنے لمحات کو نیکیوں، علم، اور خدمتِ خلق کے لیے وقف کرتے ہیں۔”

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں